|

وقتِ اشاعت :   February 19 – 2023

کراچی کے علاقے شارع فیصل پر واقع کراچی پولیس آفس پر دہشتگروں کے حملے میں دو پولیس اور رینجرز اہلکار سمیت 4 افراد شہید ہوئے جبکہ18افراد زخمی ہوئے جن میں سیکیورٹی اہلکار سمیت عملہ شامل ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جوابی کارروائی میں 3 دہشت گرد مارے گئے اور عمارت کو تقریباً 4 گھنٹے بعد کلیئر کیاگیا۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ایسٹ مقدس حیدرکے مطابق حملے میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوئے، ایک دہشت گردچوتھی منزل پر اور 2 چھت پر ہلاک ہوئے۔

ہلاک دہشت گردوں میں سے ایک نے خود کو اڑادیا۔حملہ جمعرات کی شام 7 بجکر 10 منٹ پر کیا گیا، حملہ آور پولیس لائنز سے داخل ہوئے۔حکام نے بتایا کہ رینجرز، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری نے پولیس آفس کو چاروں طرف سے گھیرے میں لیا اور آپریشن کے دوران شارع فیصل کے دونوں ٹریکس کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا۔

کراچی پولیس آفس میں تقریباً 4 گھنٹے بعد آپریشن مکمل کیا گیا۔حکام کے مطابق پولیس کو تیسری منزل پردہشت گردوں کے لائے گئے 3 بیگ ملے جن میں گولیاں اور بسکٹ تھے۔آپریشن کے دوران چوتھی منزل پر محصور ڈی ایس پی نعیم اور وسیم سمیت عملے کے متعدد ارکان کو بحفاظت نکال لیا گیا۔پولیس حکام کے مطابق جب سکیورٹی اہلکار گھیرا تنگ کرتے ہوئے عمارت کی بالائی منزل کی طرف پہنچے تو کراچی پولیس آفس کی چھت پرموجود دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گرد پوری تیاری سے آئے تھے۔

دہشت گردوں نے 2 سے 3 اطراف سے حملہ کیا، عمارت میں 40 سے 50 لوگ موجود تھے۔کراچی صدر پولیس لائن کے احاطے سے ایک کار ملی جس کے چاروں گیٹ کھلے ہوئے تھے۔حکام نے بتایا کہ بم ڈسپوزل اسکواڈ نے کے پی او میں کھڑی گاڑی کو کلیئر کردیا ہے، رجسٹریشن تفصیل کے مطابق گاڑی لانڈھی کے رہائشی کامران کے استعمال میں تھی۔اس کے علاوہ کراچی پولیس ہیڈ آفس کے مین گیٹ کے پاس سے بھی ایک کار ملی ہے، دہشت گرد ان دو کاروں میں سوار ہوکر حملے کیلئے پہنچے۔دوسری جانب کراچی پولیس چیف کے دفتر پر گزشتہ روز ہونے والے دہشت گرد حملے کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی کمیٹی قائم کر دی گئی۔بہرحال یہ دوسراحملہ پولیس پر ہوا ہے۔

اس سے قبل پشاور میں خود کش حملہ کیا گیاجس میں بڑے پیمانے پر جانی نقصانات ہوئے۔ ملک میں اس وقت دہشت گردی کی نئی لہر پیدا ہوئی ہے خطرات موجود ہیں اس حوالے سے ایپکس کمیٹی کا اجلاس بھی منعقد ہوچکا ہے اور بڑے فیصلے بھی اعلیٰ سطح پر کئے گئے ہیں کہ دہشتگردوں سے کس طرح سے نمٹاجائے گا۔ حکومت کی اب مکمل توجہ دہشت گردی کے خاتمے پر ہونی چاہئے کیونکہ ملک دہشت گردی اور انارکی کا متحمل نہیں ہوسکتا ،اس وقت مشکل ترین حالات سے ملک گزر رہا ہے ترجیحات میں سرفہرست امن اور خوشحالی لانا ہونا چائیے اس کے لیے حکومت اورتمام سیاسی ، مذہبی جماعتوں سمیت ہر مکتبہ فکر نے کردار ادا کرناہوگا۔ سیاست سے بالاتر ہوکر اپوزیشن کوبھی ملک کے مفادات کے لیے سوچنا چاہئے ۔

بدقسمتی سے اس وقت ملک میں سیاسی کشیدگی زیادہ دکھائی دے رہی ہے الزامات کے ذریعے ایک دوسرے پر وار کئے جارہے ہیں، دوسری جانب دہشت گرد وار کررہے ہیں اس طرح کے حالات میں کوئی بھی ملک سب سے پہلے اپنے دفاع کو ترجیح دیتا ہے ناکہ سیاست کرکے دہشت گردی جیسے واقعات پر بھی بیان بازی کی جاتی ہے، اس طرح کے سیاسی رویوں کو ترک کردینا چاہئے پالیسی پر بات ہوسکتی ہے مگر اس کے لیے متعلقہ فورم پر جانا ضروری ہے ۔افسوس کہ پی ٹی آئی مسلسل امن اجلاس میں شرکت سے گریزاں ہے کل انہیں بھی حکومت ملے گی تو کیا یہی رویہ وہ برداشت کر ے گی۔ ملک کو بڑے سانحات سے بچانے کے لیے سنجیدگی سے سوچنا ضروری ہے تاکہ موجودہ بحرانات کا ڈٹ کر مقابلہ کیاجاسکے۔