سانحہ بارکھان میں اہم پیشرفت سامنے آگئی، لیویز نے کوہلو، دکی کے پہاڑی علاقے سے مغوی خاتون گراں ناز کو بیٹی اور بیٹے سمیت بازیاب کرالیا تاہم اس موقع پر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ لیویز نے مغویوں کو ڈی سی آفس پہنچادیا جبکہ باقی تین مغوی بیٹوں کی بازیابی کے لئے ٹیمیں چھاپے مار رہی ہیں، بارکھان میں کنویں سے ملنے والی خاتون سمیت تینوں لاشوں کاسول ہسپتال کوئٹہ میں پوسٹ مارٹم مکمل کیاگیا،پولیس سرجن کے مطابق لڑکی کیساتھ جنسی زیادتی اور تشد کیا گیا جبکہ سرپر تین گولیاںماری گئی ہیں شناخت چھپانے کے لیے چہرے اور گردن پر تیزاب پھینکاگیا ہے، لاش 3سے4دن پرانی ہے، لاش کی شناخت اور کراس میچ کے لئے ڈی این اے سیمپل لے لئے گئے ہیں جنہیں لاہور بھیجا جائے گا جس کے آنے میں کچھ دن لگ سکتے ہیں۔
کوئٹہ پولیس نے بارکھان میں ایک خاتون سمیت تین افراد کے قتل کے الزام میں صوبائی وزیر مواصلات سردار عبدالرحمٰن کھیتران کوحراست میں لے لیا۔اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم ان سے تحقیقات کر رہی ہے،پولیس حکام کے مطابق سردار عبدالرحمٰن کھیتران کو ڈی آئی جی کوئٹہ آفس طلب کیا گیا جہاں ان سے ایڈیشنل آئی جی و کمانڈنٹ بلوچستان کانسٹیبلری چوہدری سلمان کی سربراہی میں چار رکنی اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم نے وزیر سے تحقیقات شروع کر دی۔ پولیس اور سی ٹی ڈی نے بارکھان حاجی کوٹ میں سردار عبدالرحمن کھیتران کے گھر پر چھاپہ مارکر انکے بھتیجے سمیت دو افراد کوبھی گرفتار کر لیا ۔ بہرحال اس وقت بلوچستان خبروں کی زینت بنا ہوا ہے مگر یہ خبربلوچستان کے قبائلی سربراہان، سیاستدانوں کے لیے اچھی نہیں جس قبائلی نظام کو بعض جگہ بہترکہاجاتا ہے۔
وہیں کچھ ایسی روایات ہیں جس کی وجہ سے ہر وقت بلوچستان کی پسماندگی، محرومی، عوام کی آزادی کے متعلق سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ بلوچستان کی نامور قبائلی شخصیات خود اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ قبائلی نظام کے اندر موجود بعض خامیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قبائلی نظام کا زیادہ تر فائدہ چند سردار اپنے مقاصد کے لیے اٹھاتے ہیں جن میں سیاسی اثرونفوذ بڑھانے کے ساتھ قبائلی لوگوں کو اپنے ماتحت غلام رکھا جاتا ہے اور اس نظام کی جو خوبیاں ہیں وہ الگ ہیں۔ البتہ بارکھان کیس کے متعلق جس طرح پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ یہ ایک ٹیسٹ کیس قبائلی سرداروں کے لیے ہے کہ وہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام اور قبائلی نظام کی بہترین کے لیے اپنا کردار کس طرح ادا کرینگے تاکہ کوئی بھی شخص پورے قبائل کو یرغمال بناتے ہوئے جو مرضی ان کے ساتھ کرگزرے۔ قبائل کے لوگوں کو تعلیم، صحت، روزگار سمیت ہر چیز سے محروم نہ رکھاجائے کیونکہ اپنی روایات کی پاسداری کرکے انہیں مزید بہتر کرنا خود سربراہان کی ذمہ داری ہے۔
ِکوئی باہر سے آکر معاملے کو ٹھیک نہیں کرے گا اس طرح کے کیسز آئینگے تو یقینا بلوچستان کا منفی قبائلی چہرہ سامنے آئے گا جس پر نقاد بات کرینگے اور اپنی طرف سے بھی بہت کچھ خامیاں ڈال کر بلوچستان کے مسائل اور محرومیوں کا ذمہ دار سرداروں کو ٹھہرائینگے۔ البتہ امید ہے کہ اس کیس میں حکومت تواپنا کام کرے گی ساتھ ہی قبائلی سربراہان بھی اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کلیدی کردار ادا کرینگے تاکہ متاثرہ خاندان کو انصاف ملنے کے ساتھ قبائل کے لوگوں کے اندر موجود خوف کا خاتمہ ہوسکے ۔