کورونا وبا نے جہاں دنیا کو وبائی امراض سے لڑنا سکھایا ہے تو وہیں اس آفت نے دنیا کے زرعی،مالدار اور انڈسٹریل ملکوں کو خود کفیل ہونے کا موقع بھی فراہم کردیا ہے بظاہر ہم دنیا والوں کو مہنگائی میں اضافے کی وجہ کورونا وبا نظر آرہی ہے لیکن حالیہ واقعات اور مشاہدات کچھ الگ ہی کہانی سناتے ہیں تو چلیں اس کہانی کی طرف چلتے ہیں ۔
کہانی کی شروعات یوں تو بہت پہلے ہی ہوچکی تھی لیکن امریکا میں نائن الیون کے حملوں نے دنیا کے سامنے اسے نیا موڑ دے دیا کہ جب امریکا نے افغانستان پر اکتوبر دوہزار میں چڑھائی کی تھی جس میں نہ صرف امریکا کو برطانیہ سمیت مغربی اتحادیوں کی حمایت حاصل تھی بلکہ ا فغانستان سے طالبان کا زور توڑنے کیلیئے شمالی اتحاد اور اینٹی طالبان قوتوں کا بھی سہارا لیا گیا ۔ابھی افغان جنگ تھمی بھی نہ تھی کہ امریکا نے عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کا الزام عائد کرتے ہوئے دوہزار تین میں خود کو ایک اور نئی جنگ میں جھونک دیا ۔اس جنگ کو مسلط کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ کا تھا یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب ایک طرف عراق میں معصوم بلکتے بچوں کی آہ و بکا تھی تو دوسری طرف رمز فیلڈ قہقہے لگاتا ہر نئے دن کے ساتھ ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوکرعراق کے خلاف زہر اگلتے نظر آتے۔مسلم دنیا میں جہاں عراق اور افغان جنگ کو مسلمانوں کیخلاف سازش قرار دیا جارہا تھا وہیں روس کو باقی ماندہ سوویت یونین کے مزیدحصے ہونے کا ڈر بھی لاحق تھا ۔
اصل جنگ دہشتگردی کیخلاف تھی یا روس کے؟لوگ ان ہی مباحثوں میں الجھے تھے اور امریکا اپنی پوری طاقت معدنیات،تیل اور دیگروسائل سے مالامال ملکوں پر قبضہ جمانے اور خطے میں اپنے نئے فوجی اڈوں کے قیام پر لگارہا تھا جہاں ایک طرف جنگی ماحول تھا تو وہیں پس منظر میں امریکی معیشت کا ڈبہ گول کرنے کیلیئے چین خاموشی کے ساتھ اپنی ترقی پر توجہ مرکوز کیے بیٹھا تھا ،اسے کسی کی فکر تھی نہ ہی پڑوسیوں کا خیال وہ تو بہت آگے کی سوچ لیے بیٹھا تھا کیونکہ چین ویت نام جنگ کے بعد سبق حاصل کرچکا تھا کہ امریکا سے لڑنا ہے تو پہلے اقتصادی میدان میں خود کو مضبوط کرنا ہوگا۔
یہی وہ دور بھی تھا جب چین دنیا میں الیکٹرونک آلات اور مشینوں کی تجارت کرکے امریکا اور مغربی مارکیٹوں میں اپنے قدم جمارہا تھا چین نے نا صرف اس میدان میں جاپان کو پیچھے چھوڑا بلکہ بڑی تیزی کے ساتھ امریکاکے مقابلے میں دنیا بھر میں اپنی سستی مصنوعات کی خوب تشہیر کرکے مغربی اور خلیجی مارکیٹوں میں اپنے پنجے گاڑھے۔امریکا کو جنگی جنون کے بعد کچھ ہوش آیا تو اس نے وقتاً فوقتاً ہانگ کانگ تائیوان تنازعات اور بھارت چین کشیدگی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، تجارتی شراکت داروں اور عرب ملکوں کوچینی تجارتی مارکیٹوں کا رخ کرتے دیکھا تو ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے چینی معیشت کا کمر توڑنے کیلئے نیا طریقہ اپنایا گیا ٹرمپ انتظامیہ نے ناصرف چینی مصنوعات پر دس فیصد ٹیکس عائد کردیا بلکہ چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کا بھی مطالبہ کیا جس کے جواب میں چین نے بھی امریکا کی سنی ان سنی کردی اور امریکی زرعی مصنوعات کے بائیکاٹ سمیت ان پر ٹیکس عائد کرنے کا بھی اعلان کردیا جس کا اثر امریکی معیشت پر بری طرح پڑا اور امریکی معیشت کا پہیہ ایک ہی دن میں ہچکولے کھانے لگا اور سپر پاور کی اسٹاک مارکیٹ ڈاؤ جونز میں کم ترین سطح پر ٹریڈ کرنے پر مجبور ہوا۔امریکی انتظامیہ کی دال نہ گلی تو اس نے اپنی توپوں کا رخ ایک بار پھر روس کی طرف کردیا کیونکہ اسے شبہ تھا کہ چینی ترقی اور امریکی معاشی بدحالی کے پیچھے ضرور اسی قطبی ریچھ کا ہی ہاتھ ہوگا ۔دوہزار سترہ میں جب امریکہ نے روس پر تجارتی پابندیا ں لگائیں تو روس نے بھی بھرپور منہ توڑ جواب دیا ۔
ابھی دنیا میں بڑوں کی رسہ کشی جاری تھی کہ کورونا نے دنیا کو ایک نئے عذاب میں مبتلا کردیا ،کورونا سے متعلق بھی امریکا اورچین مسلسل ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار کرتے نظر آئے امریکا نے اسے چینی شہر ووہان کی لیبارٹری سے لیک ہونے والا وائرس کانام دیا تو چین اسے امریکی سازش گردانتا رہا ان دونوں ملکوں کے الزامات کے بیچ دنیا کو جو قیمت چکانی پڑی اس کے نقصانات ابھی بھی جاری ہیں کورونا کے چند ہی مہینوں بعد ایک اور معاشی جنگ شروع ہوئی جو قطعی طور پر انسانیت کی بھلائی کیلئے نہیں بلکہ صرف معاشی فائدے اور ملکی مفادکیلئے تھی اور وہ تھی انسداد ِکورونا کی دوائی بنانے کی دوڑ جس میں پہل تو کی امریکا نے لیکن چین اور روس بھی پیچھے نہ رہے پہلے تو اس ویکسین کی آزمائشی خوراکوں کا سلسلہ شروع ہوا پھر آہستہ آہستہ امریکی،برطانوی اور روسی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس کی قیمت کا تقاضہ کرنا بھی شروع کردیا پھر ہرطرف صدائیں بلند ہوئیں کہ میری دوائی موثر میری دوائی اچھی۔
کورونا کے عذاب سے نکلتے نکلتے دنیا کو جہاں غذائی قلت کے نام پر طاقتور ملکوں کی جانب سے مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا تو وہیں رہی سہی کسر موسمیاتی تبدیلی اورز لزلوں نے پوری کردی ۔اس پورے عرصے میں امریکا اسرائیل کے ذریعے خلیجی،ایشیائی اور ناصرف افریقی بلکہ بعض یورپی اورلاطینی امریکی ملکوں کی بھی جاسوسی کرتا رہا جس کا مقصد بظاہر ان ملکوں کو بلیک میل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بھی تھی تاکہ یہ کسی بھی طرح امریکی تسلط سے باہر نہ نکل پائیں اور اس دوران دنیا کے مختلف خطوں میں مغربی طاقتوں نے رجیم چینج کرنے میں اپنے کھیل دکھا نا شروع کردئیے۔ اس حوالے سے پیگاسس جیسے جاسوسی سافٹ وئیر سمیت کئی ایسی دیگر معلومات بھی دنیا کے سامنے آشکار ہوئے جن کے تانے بانے امریکی حمایت یافتہ اسرائیل سے ملتے ہیں ۔ اسی عرصے میں قطر میں ہونے والے طالبان مذاکرات میں بھی ایک پیش رفت سامنے آئی اور سابق افغان حکومت کو فرار کا راستہ دکھاتے ہوئے امریکا نے افغانستان سے نکل جانا ہی غنیمت سمجھا اور عرصہ درازتک غیرملکی طاقتوں سے لڑنے والے طالبان کو افغانستان کی باگ ڈور پکڑادی جو سانپ بھی مرجائے اور رسی بھی نہ ٹوٹے کے مترادف تھا۔
جیسے جیسے دنیا میں امریکا اورمغربی طاقتوں کا اصل چہرہ عیاں ہوتا گیا ویسے ویسے روس اور چین بھی بھرپور فائدہ اٹھانے میں لگے رہے۔ آرمینیا اور آذر بایئیجان کی جنگ کے بعد مغربی طاقتوں نے روس کو اکسانے کیلئے ایک کامیڈین کو یوکرین کا صد ر بنادیا اور پھر اسے جوہری ہتھیار وں سے لیس ہونے کا شوشہ چھوڑ دیا۔ جس کے بعد روس نے ایک نیا محاذ کھولا جس نے پوری دنیا میں عذاب برپا کر رکھا ہے کیونکہ سالانہ دوکروڑ ٹن گندم پیدا کرنے والے ملک میں جنگ کے بعد دنیا کو نئے غذائی بحران سے دوچار کردیا ہے۔ ابھی دنیا اس مسئلے سے نبردآزما تھی کہ روس نے مغربی ملکوں کو گیس کی فراہمی معطل کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ گیس کی خریداری ڈالر کی بجائے روسی کرنسی روبل یا دوسری مقامی کرنسی میں کی جائے جس کا براہ راست فائدہ روس کو تھا کیونکہ ایسی خریداری سے امریکی کرنسی ڈالر کی ویلیو گر کر دنیا سے اس کا تسلط ختم ہوجاتا اور روسی کرنسی مستحکم ہوجاتی جس سے غریب ایشیائی اور افریقی ملکوں کو بھی فائدہ پہنچتا اور وہ آئی ایم ایف جیسے بدمست ہاتھی کے چنگل سے آزاد ہوجاتے جن کی ڈور براہ راست امریکی اور مغربی ملکوں سے ہلائی جارہی ہے۔ مغربی ملکوں کو روسی گیس سپلائی کی دھمکی نے جب کام دکھانا شروع کیا تو اسی دوران ستمبر دوہزار بائیس میں بالٹک سمندر میں روس سے جرمنی جانے والی نارڈ اسٹریم گیس پائپ لائنوں میں لیکج کا انکشاف ہوا جس کی تحقیقات کے بعد روسی حکام نے دعویٰ کیا کہ نورڈ اسٹریم پائپ لائنوں کو دھماکے ذریعے اڑایا گیا ہے اور اس تخریبی کارروائی میں برطانیہ کو ملوث قرار دیا۔
یوکرین پر مسلط روسی جنگ نے دنیا میں روس کی ساکھ بہت متاثرکیا، کئی روسی دوست ملک اس جنگ پر خفا نظر آئے، سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ جس ملک کا دور دور تک اس تنازع سے کوئی تعلق بھی نہ تھا وہ ملک پاکستان جو پہلے ہی مشکلات سے دوچار تھا اس کا وزیر اعظم بھی ان ہی دنوں روسی دورے پر پہنچ گیا جس کی گردن کومغربی ملکوں نے ایسے دبوچا کہ ملک کو اقتصادی اور سیاسی بحرانوں میں لاکھڑا کردیا
ادھر جنگ کا بدلہ مغرب نے روس پرپابندیوں کی صورت پورا کیا اس جنگ پر امریکا نے جتنا پروپیگنڈا کیا شاید ہی کوئی دوسرا ملک کرتا کیونکہ مغربی ملکوں کا انحصار امریکی طاقت پر ہے اور امریکا کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کے مغربی اتحادی روس یا چین کی صفوں میں شامل ہوجائیں۔ اس کا اندازہ آپ اس سے بخوبی لگاسکتے ہیں کہ روس یوکرین جنگ کا ایک سال مکمل ہونے سے چند دن قبل ہی ترکیہ میں آنے والے زلزلے کے بعد امریکا کی جانب سے ترکیہ کو اس بات پر مجبور کرنا کہ وہ فن لینڈ اورسوئیڈن کی نیٹو میں رکنیت کی حمایت کرے کیونکہ ترکیہ اس اقدام کا سب سے بڑا مخالف تھا۔ نیٹو دراصل ان مغربی ملکوں کا وہ اتحاد ہے جس میں یہ مل کر عہد کرتے ہیں کہ کسی بھی غیر ملکی طاقت کی جانب سے حملے کی صورت میں یہ مل کر اس کا مقابلہ کرینگے جس کا فائدہ صرف اور صرف امریکا اورمغرب کو ہی ہونا ہے ۔
روسی،امریکی اورمغربی ممالک ان معاملات میں الجھے رہے اور چین نے دنیا میں اپنی ساکھ مزید مضبوط کرلی جس کا ثبوت سعودی عرب اور ایران جیسے ملکوں کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر بٹھانا ہے چینی ثالثی میں خفیہ ہونے والے مذاکرات سے امریکا،اسرائیل اور مغربی اتحادیوں کو بہت بڑا دھچکا لگا۔
دنیا میں پیش آنے والے اگر حالیہ حالات و واقعات کو دیکھیں تو ہر طرف ایک تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے جرمنی ورکرز یونین کی ہڑتالوں کے نرغے میں ہے تو فرانس اور اسرائیل متنازع قوانین کے بعد پرتشدد مظاہروں کا سامنا کرر ہے ہیں۔پاکستان ہو،افریقی ملک جنوبی افریقہ،گھانا،کینیا میں سیاسی بحران یا لاطینی امریکی ملک ہنڈوراس کی جانب سے تائیوان کے مقابلے میں چین کی حمایت ہرطرف تبدیلی نظر آرہی ہے جو اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ آنے والی تبدیلی ایسی ہوگی جو دنیا کو ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دے گی اور شاید دنیا کو مغربی طاقتوں کے چنگل سے بھی آزاد کردے یہ تبدیلی دنیا میں کسی نئی طاقت کو خوش آمدید کہنے کیلئے تیار نظر آرہی ہے۔