|

وقتِ اشاعت :   March 29 – 2023

بلوچستان میں وفاقی منصوبوں کی تکمیل کا مسئلہ روزاول سے درپیش رہاہے جتنے بھی منصوبے بلوچستان کے لیے دیئے جاتے ہیں وہ مکمل ہوتے نہیں بیشتر منصوبے صرف کاغذاور اعلانات تک محدود ہوتے ہیں جس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ ٹرانسپورٹ سے لے کر دیگر منصوبوں تک زمین پر کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا جس کی نشاندہی بارہا کی جاچکی ہے مگر وفاقی حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث بلوچستان مسائلستان بن چکا ہے عوامی مفاد عامہ کے منصوبے دور دور تک دکھائی نہیں دیتے ،دیگر صوبوں کے ساتھ موازنہ کیاجائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ آج وہاں ترقیاتی کام کہاں تک پہنچ چکے ہیں اور عوام ان سے کس قدر مستفید ہور ہے ہیں مگر بلوچستان کے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

بہرحال اس معاملے پر وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدس بزنجو نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت پی ایس ڈی پی 2022-23 کی پیش رفت کا جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں آئندہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام کی تیاریوں کا بھی جائزہ لیا گیا ۔ اجلاس میں صوبے میں جاری وفاقی منصوبوں کی سست روی اور فنڈز کے عدم اجراء پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا، اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ رواں مالی سال صوبے میں وفاقی منصوبوں کا تخمینہ لاگت 103 ارب روپے ہے ان منصوبوں کے لئے ہر سہ ماہی میں 26 ارب کا اجراء ہونا تھااور اب تک 76 ارب جاری ہونے چائیے تھے تاہم اب تک وفاقی حکومت کی جانب سے صر ف 31 ارب روپے کا اجراء کیا گیا ہے۔

اجلاس میں حکومت بلوچستان کی جانب سے وفاقی حکومت کی عدم توجہی پر شدید احتجاج کا فیصلہ کیا گیا ۔وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کی اسکیمیں تو شامل کر لی جاتی ہیں لیکن فنڈز نہیں دیئے جاتے، صوبے کی عوام سمجھتے ہیں کہ یہ فنڈز بد عنوانی کی نظر ہو رہے ہیں جبکہ فنڈز دستیاب ہوتے ہی نہیں ہیں ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ منصوبہ بندی و ترقیات اور خزانہ کے وزراء نے اسلام آباد میں وفاقی وزراء احسن اقبال اور اسحاق ڈار سے ملاقاتیں کیں، وفاقی حکومت کی بارہا یقین دہانیوں پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ صوبے کے آئینی حقوق کے تحفظ کے لئے ہر آئینی و قانونی طریقہ کار اپنائیں گے ،کمزوری اور مروت دکھانے سے وفاق سے کچھ نہیں ملے گا اگر اسی رفتار سے وفاقی منصوبے چلیں گے تو یہ اگلے 20 سال میں بھی مکمل نہیں ہونگے۔

میرعبدالقدوس بزنجو نے کاکہنا تھاکہ وفاق بلوچستان کی ترقی سے متعلق اپنے رویے اورپالیسیوں کا از سر نو جائزہ لے بلوچستان اس ملک کا مستقبل ہے جسے نظر انداز کرنے سے نقصان ہو گا، ہر آئینی اور سیاسی فورم پر بلوچستان کے حق کے لئے پرزور آواز بلند کرینگے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ایک منتخب وزیراعلیٰ بلوچستان وفاق سے شکوہ کررہا ہے ماضی گواہ ہے کہ وفاق اور بلوچستان کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ وفاقی حکومتوں کا ناروا رویہ رہا ہے۔ بلوچستان کو ملکی معیشت کا گیم چینجر تو کہاجاتا ہے مگر بدقسمتی سے بلوچستان کو اس کاجائزمقام اور حق تک نہیں دیاجاتا ۔

اگر بلوچستان میں چلنے والے منصوبوں سے ہی ریونیو مل جائے تو بلوچستان وفاقی حکومت کے منصوبوں کا محتاج نہیں ہوگا اور نہ ہی فنڈز کے مسائل پیدا ہونگے مگر تمام تر منصوبوں کا منافع کمپنیاں اور وفاق لے جاتے ہیں اور بلوچستان کو صرف دو یا پانچ فیصد تک محدود کردیا گیا ہے جس سے ایک بہت بڑے رقبے پر پھیلے ہوئے منتشر آبادی کو کس طرح سے ترقی دی جاسکتی ہے۔ امید اور توقعات ماضی میں بھی رکھے گئے ،شاید کچھ ہوش وفاقی حکومت کرے کہ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کو ترجیح دیتے ہوئے فوری فنڈز کا اجراء سمیت بلوچستان کے میگامنصوبوںسے اس کا حصہ دیاجائے تاکہ شکوے اور گلے ختم ہوسکیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کیا حکمت عملی اپنائینگے اور احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے وفاقی منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنائینگے۔