ملک میں مہنگائی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے ، لوگ شکوہ کناں ہیں کہ معاشی حالات نے ان کی زندگی پر انتہائی برے اثرات مرتب کئے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ مصنوعی مہنگائی جو اس وقت عام مارکیٹوں میں ہے اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے کہ کس طرح سے غریب عوام کو گرانفروش اور ذخیرہ اندوز ملی بھگت سے لوٹ رہے ہیں ۔المیہ تو یہ ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں مکمل طور پر غیر فعال ہیں ضلعی منتظمین غائب ہیں، صوبائی حکومتیں اور وفاق کی جانب سے کسی قسم کا ٹھوس اقدام دکھائی نہیں دے رہا کہ مصنوعی مہنگائی کو کنٹرول کیاجائے، البتہ ایک انقلابی اقدام سماجی تنظیموں اور شہریوں نے خود اٹھایا ہے۔
جنہوں نے پھل فروٹ کا بائیکاٹ کررکھا ہے جو کہ ایک درست عمل ہے، عام لوگ ہی تبدیلی لاتے ہیں طاقت کا محورومرکز عوام ہی ہیں اگر عوام خود اپنے مفادات کاتحفظ کرنے کے لیے قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج ریکارڈ کرائیں تو اس کا بڑا اثر پڑتا ہے اور بعض شہروں میں بائیکاٹ کی وجہ سے گرانفروشوں کومجبوراََ قیمتیں کم کرنی پڑی ہیں۔ بہرحال مسئلہ یہاں اب سیاسی جماعتوں کا ہے جو اس وقت اپنی سیاست میں لگے ہوئے ہیں اور موجودہ معاشی بحران کا الزام ایک دوسر ے کے اوپر ڈال رہے ہیں مگر ذمہ داری کوئی نہیں اٹھارہا ۔ اول تو یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ موجودہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرے ،محض سستا اور مفت آٹا مسئلے کاحل نہیں ہر چیز پر رعایت دی جائے کیونکہ لوگوں کی آمدن منجمد ہے جبکہ چیزیں مہنگی ہوتی جارہی ہیں اس واضح فرق کو کم کرنا ضروری ہے ۔
مہنگائی سے بچت متاثر ہونے کا کہنے والے پاکستانیوں کی شرح میں 13 فیصد اضافہ ہوگیا۔گیلپ پاکستان نے کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس کا نیا سروے جاری کردیا ہے جس کے مطابق گزشتہ سروے میں 60 فیصد اور اب 73 فیصد شہری مہنگائی کے نتیجے میں بچت میں کمی کا شکوہ کرتے ہیں۔مستقبل میں بچت میں اضافے سے پُرامید پاکستانیوں کی شرح بھی 7 فیصد گھٹ کر 17 فیصد ہوگئی۔اگلے چھ ماہ میں بچت میں کمی کاخدشہ ظاہر کرنے والے پاکستانیوں کی شرح 2 فیصد اضافے کے بعد 51 فیصد پر دیکھی گئی۔عام لوگوں کے اندر یہ تاثر مزید گہرا ہوتاجارہا ہے کہ مستقبل میں مزید مہنگائی بڑھے گی اور ساتھ ہی لوگوں کو اپنے روزگار سے ہاتھ دھونے کا خطرہ بھی لاحق ہے۔ حکومت کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اس کا تعلق براہ راست عوام سے ہے سیاسی معاملات اپنی جگہ مگر عوام کو اس تمام تر سیاسی جنگ کے اندر تنہا چھوڑنا زیادتی ہے ۔
حکومتی معاشی پالیسی نے اب تک کوئی مثبت نتائج نہیں دیئے ہیں اور مستقبل میں بھی امیدیں کم رکھی جارہی ہیں ،عوام میں موجود اس بے چینی کا خاتمہ ضروری ہے۔ سستے بازارماہ صیام تک ہوتے ہیں مگر وہاں بھی تمام تر اشیاء موجود نہیں ہوتیں جس کی ضرورت عام لوگوں کو ہوتی ہے اس لیے مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لیے ایک واضح روڈ میپ تیار کیاجائے ،معاشی ماہرین کے ساتھ ملکر مسئلے کا حل نکالاجائے تاکہ عوام کو موجودہ مہنگائی اوربے روزگاری سے نجات مل سکے۔ حکومتی جماعتوں کومستقبل میں عوام کے پاس ہی ووٹ کے لیے جانا ہے تو نتائج بھی ان کے پاس ہونے چاہئیں کہ عوام کو انہوں نے دیا کیا ہے؟ جس طرح پی ٹی آئی نے ساڑھے تین سال تک محض لوگوں کو تسلیاں دیں اور مزید معیشت کا بیڑاغرق کرکے رکھ دیا ۔ان تمام خرابیوں کودور کرنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کیونکہ پی ڈی ایم نے حکومت اسی دعوے کی بنیاد پر لی تھی کہ وہ حکومت میں آکر عوامی مسائل کو حل کرے گی لہٰذا اس جانب توجہ دی جائے اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ عوام کی مشکلات میں کمی آسکے جس کا فائدہ خودسیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں نتائج کی صورت میںملے گا۔