نظریاتی ہم آہنگی میں تنگ دامنی ہر گز نہیں ہوتی، اونچائی آسمانوں کو چھوتی ہے، وسعت چار دانگ عالم سے وسیع تر اورگہرائی پاتال کی حدوں تک، جب رشتہ اس قدر شاندار ہو تو جغرافیائی تبدیلی اس پر ہر گز اثر انداز نہیں ہو سکتی، اس حقیقت کو جہاں دوسرے لوگوں نے خوب تر بیان کیا ہے وہیں پر شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی سمندر کوکوزہ میں بند کردیا ہے
اک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
، نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر
یوں تو علماء ہند کا ہر فرد اپنی تاریخ میں نرالا تر ہے، یہ بھی کہ اس لڑی میں جرات و شجاعت و بے باکی میں امام الہند مولانا ابو اکلام ایک انمول مو تی تھے آپ جہاں جس سے مخاطب ہوئے ان کی بے باکی تلاطم خیز رہی۔ مولانا مولانا ابو اکلام اپنی اس بے باکی کی وجہ سے زندگی کا ہر ساتواں دن پسِ زندان گزارکرامر ہوگئے، مولانا ابو اکلام آزاد کی ایک مستقل عادت تھی کہ آپ نے جو کہا چاہے۔ وہ منبر کی تقریر ہو،چاہے عدالتوں کے بیان اس کو پہلے ضبط تحریر میں لایا۔ کہتے ہیں۔
ایک بار حکومت ِ بر طانیہ کے بر خوردار درجہ اول کے مجسٹریٹ حکومتی مصلحت کے تحت مولانا ابو الکلام آزاد پر بغاوت کا مقدمہ درج کرنا چاہ رہا تھا لیکن حکومتی انٹلی جنس اہلکار کی لکھی ہوئی رپورٹ سے بغاوت کے مقدمات قائم نہیں ہورہے تھے کیونکہ لکھنے والے نے انگریزی میں لکھا تھا اور مولانا ابو الکلام آزاد کی تقریر اردو میں تھی۔ مولانا ابو اکلام آزاد نے خود اس مجسٹریٹ کی مشکل کو اس طرح حل کردیا کہ اپنی اس تقریر کی کاپی مجسٹریٹ کو پیش کرکے فرمایا اس سے آپ کی مشکل آسان ہوگی اور بغاوت کا مقدمہ آسانی سے بن جائیگا اور پھر ملزم کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ اس لئے تو ہم کہتے ہیں۔
بر طانیہ کو بر صغیر پر حق حکرانی حاصل نہیں ہے کیونکہ وہ ہماری زبان،ثقافت،مذہب اور روایات سے واقف نہیں ہے۔ مولانا ابو اکلام آزاد رحمہ اللہ کی ایک مستقل کتاب ان کی عدالتی بیانات پر مشتمل چھپی ہے جس کا عنوان ہے ”جیل میں آزاد“ اس کتاب کا اقتباس اس طرح ہے مولانا ابو اکلام آزاد درجہ اول کے مجسٹریٹ کی عدالت کو مخاطب کرکے کہتا ہے (مسٹر مجسٹریٹ یہ قدرت کی تقسیم ہے کہ آپ عدالت کی کرسی پر اور میں ملزم کے کٹہرے میں،لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ کے لئے جس قدر عدالت کی کرسی مقدس ہے اس سے کہیں زیادہ ملزم کا یہ کٹہرا میرے لئے مقدس ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگ کے میدانوں کے بعد سب سے زیادہ نا انصافیاں عدالتوں کی کرسیوں سے ہوئی ہے۔
تمہید لمبی ہوگئی،پی ڈی ایم کے سربراہ امیر جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمن نے ڈیرہ اسماعیل کے پریس کانفرنس میں عدالتی امور پر جو کچھ کہا وہ دہرانا تحصیل حا صل ہوگا لیکن جس طرح سے انہوں نے بولا وہ حیران کن اس لئے تھا کہ آپ کی آواز میں خود اعتمادی تھی دلیل و منطق تھا،روانی تھی اور پھران کے اس طرح کے انداز بیان سے واضح جھلک رہا تھا کہ ڈر اور خوف کا ان کے ہاں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، جرات و شجاعت کی ایسی گفتگو کہ سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں، قارئین یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے کسی طاقت ور کو اس طرح سے مخاطب کیا ہو بلکہ آپ کی سیاسی زندگی میں اس طرح کے بہت سے موڑ آئے جب مولانا نے اس سے بھی سخت بول کر سب کو تحیر میں ڈال دیا۔
جب امریکہ نے طالبان کی حکومت پر شب خو ن مارا تواس وقت کی تقریر وں کا ریکارڈ کہتا ہے کہ اس بد مست ہاتھی کو شاید مولانا کی طرح کسی نے للکارا ہو، اور ایک مرتبہ نہیں بلکہ بلوچستان اور خیبرپختون خواہ کے ہر سرحدی علاقے میں بڑے بڑے جلسہ کرکے امریکہ کو خوب سنا یا،اور پھر جن کی حمایت سے امریکہ افغانستان میں داخل ہوگیا تھا وہ بھی تو اپنے خول میں ناقابل ِ درانداز شمار ہوتے تھے لیکن امیر جمعیت علماء اسلام نے ان کو بھی وہ سب کچھ بتادیا جس کے وہ مستحق تھے، 2018 ء کے الیکشن کے بعد جس طرح سے مولانا نے عمران خان کے داخلی اور خارجی حمایت کرنے والوں کی سر زنش کی وہ بھی تاریخ کا ایک مستقبل باب بن گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو نیب کی جب دھمکی دی گئی، تو بھی مولانا نے کہا کہ میں ایسی دھمکیوں کو جوتے کی نوک کر رکھتا ہوں۔ مولانا کے اس بیان کے بعد خود چیئر مین نیب دفاعی پوزیشن میں آگئے۔
اب جبکہ محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان نے سیاسی جماعتوں کو باہمی مشاورت سے مسائل حل کرنے کے لئے ریمار کس دئیے اور اس پر مولانا صاحب نے جس طرح کے رد عمل کا اظہار کیاوہ بھی مولانا کی اپنی گفتگو ہے۔ اس سے اختلاف اتفاق ہر گز مطلوبِ تحریر نہیں ہے، لیکن جب میں خود اس پریس کانفرنس کو سن رہا تھامجھے یوں محسوس ہو رہا تھا۔
مولانا کے دل و دماغ میں امام الہند مولانا ابو اکلام آزاد رحمہ اللہ کی روح حلول کرکے بو ل رہا ہے، مولانا فضل الرحمن ایک بار نہیں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ان کی تاریخ و روحانی نسب نامہ جمعیت علماء ہند اور دارلعلوم دیوبند سے جڑ جاتی ہے۔ اور جمعیت علماء ہند کی تاریخ و کردار ان کی جماعت کا سرمایہ اور ان کے لئے آئینہ کی مانند ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے اکابرین اور کارکن سب کچھ بر داشت کریں گے لیکن اپنی تاریخ کو دھندلا نہیں کرینگے۔ امام الہند مولانا ابو اکلام آزاد کی شاندار زندگی اور جہد مسلسل کے لئے اس سے بڑی خوشی کیا ہو سکتی ہے کہ ان کے عملی کردار کو زندہ رکھنے والے آج بھی موجود ہیں ۔
اور کائنات ارضی کی تغیر و تبدل کے احوال ارواح کو پہنچ جانے کی خبر صادق ومصدوق کا فرمان ہے یقینی طو ر پر مولانا ابو اکلام آزاد کی مقدس روح کو یہ سب کچھ پہنچ گیا ہو گا کہ مفکر اسلام مولانا مفتی محمود کے جانشین نے ڈیرہ اسماعیل خان کی سرزمین میں اسی طرح کی جرست و بے باکی کا مظا ہرکیا ہے جس طرح کی بے باکی سے آپ نے بر طانیہ کے درجہ اول کے مجسٹریٹ کو خطاب کیا تھا، تو امام الہند کی روح یقینی طور اپنے اس لا ڈلے فرزند کے کردار کو فرشتوں کی مجلس میں فخر سے پیش کر تے ہوئے کہا ہوگا، واہ مولانا فضل الرحمن۔