|

وقتِ اشاعت :   May 18 – 2023

کوئٹہ:  بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ 9مئی کو سیاسی تاریخ کے سیاہ دن کے طور یاد رکھا جائیگا جن تنصیبات پر حملہ کیا گیا۔

وہ ریاست پاکستان کا استعارہ تھیں 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کاروائی کی جائے ،اگر قانون کے مطابق کسی فرد یا جماعت پر پابندی لگتی ہے تو اس پر بھی عملدآمد کیا جائے،پی ٹی آئی کے لوگ بتائیں وہ کس سے آزادی لینا چاہتے تھے۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کو قبضہ گیری سے تشبیح دی گئی ریاست نے 9مئی کو طاقت کا استعمال نہ کر کے ملک کو بڑے نقصان سے بچایا ۔

یہ بات بلوچستان عو امی پارٹی کے رہنماء سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے رکن قومی اسمبلی روبینہ عرفان ، وزیراعلیٰ کے مشیر نوابزادہ گہرام بگٹی، رکن صوبائی اسمبلی میر عارف جان محمد حسنی، پارلیمانی سیکرٹری بشریٰ رند، خلیل جارج، ماہ جبین شیران کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ 9مئی کو سیاسی تاریخ کے سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائیگا، پاکستان سیاسی طور پر غیر مستحکم کی جانب گامزن ہورہا ہے بلوچستان کی سطح پر ان مذموم مقاصد کی مذمت کرتے ہیں اور اس بات کا اعادہ کر تے ہیں کہ بطور بلوچستان کے شہری کے ہم پاکستان کو علامہ اقبال کے خواب اور قائد کی تعبیر کے مطابق لانے میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ آج ملک میں بحث ہورہی ہے کہ چند عمارتوں کو پر حملہ آور ہونا اتنی بڑی بات نہیں ہے لیکن یہ ایک سنگین جرم ہے جن عمارتوں پر حملہ کیا گیا ۔

وہ پاکستان کی ریاست کا استعارہ تھیں ۔انہوں نے کہا کہ معمول کے مطابق زندگی ،سیاست اور معاشرتی معاملات کو چلانے کے لئے معاشرے میں امن و استحکام کی اشد ضرورت ہے آج ملک کے سیاست دانوں، دانشوروں، سول سوسائٹی کو مستحکم سماجی نظام کے لئے ایک ساتھ آنا ہوگا انتشار ،طوائف الملوکی کی صورتحال کا نقصان ملک اور معاشرے دنوں کو پہنچ رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں انتشار پھیلانے والوں کی ہر قدم پر مذمت اور مزاحمت کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ 9مئی کے واقعات میں ملوث ہیں انکے خلاف 1952کے آرمی ایکٹ کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے اس قانون کے تحت کاروائی میں کوئی قباحت نہیں ہے یہ ریاست کا قانون ہے اور جس بھی معاملے کا تعلق براہ راست فوج سے ہو اس پر کاروائی آرمی ایکٹ کے تحت کی جاتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ 2013میں بھی فوجی عدالتیں قائم کی گئیں تھیں تاکہ کرمنل جسٹس سسٹم کو بہتر کیا جائے ایسا نہیں ہے کہ سولیں عدالتیں اپنا اعتماد کھو چکی ہیں لیکن عدلیہ میں ایک واضح تفریق نظر آتی ہے اور ایک فریق جسے عدلیہ سے رعایت مل رہی ہے۔

پر دوسرے فریق کا شکوہ ہے کہ انکے ساتھ انصاف نہیں ہورہا ۔ سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ رکن اسمبلی بننے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کے پاس قانون ہاتھ میں لینے کا لائسنس آجائے اگر مبین خلجی 9مئی کے واقعات میں ملوث تھے تو ان کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہیے بلوچستان عوامی پارٹی بطور سیاسی جماعت کے صورتحال کو دیکھ رہی ہے ۔۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جن لوگوں پر الزامات ہیں وہ کچھ حقائق کی بنیاد پر ہی لگے ہیں کیا کور کمانڈر کا گھر نہیں جلایا گیا یا دیگر املاک پر حملہ نہیں ہوا؟ ۔انہوں نے کہا کہ ریاست ایک دم سے جواب نہیں دیتی بردباری اور برداشت سے کام لتی ہے لیکن ایک سال میں پی ٹی آئی جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کس سے آزادی لینا چاہتی تھی وہ لوگ جو کہتے تھے کہ تیرے باپ سے بھی لیں گے آزادی کس سے آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے ؟ کیا ایک تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کو قبضہ گیری سے جو ڑ دیا گیا ۔ایک سوال کے جواب میں سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ عمران خان سیاسی شہید ہونگے یا نہیں فیصلہ سیاسی تاریخ کریگی وہ ہیرو بھی بن سکتے ہیں اور ولن بھی مگر قانون اپنا راستہ اختیار کریگا اور اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام ،اسٹیبلشمنٹ ،عدلیہ کے ایک حصے نے عمران خان کو بنایا میں انکی نہیں بلکہ عمران خان کی مذمت کرونگا کیونکہ مجھ سمیت عوام اور دیگر لوگوں نے عمران خان کو بہتر گورننس ، خارجہ پالیسی کوعام لوگوں کے مفاد میں استعمال سمیت مسائل کے حل کے لئے ووٹ اور ساتھ دیا تھا ۔انہوں نے کہا کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو یکا یک ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔
اس کے لئے سیاسی حکمت عملی چاہیے ناکہ سلطان راہی یا مولہ جٹ فارمولے کا استعما ل طاقت کے استعمال کے فارمولے ناکام ہوچکے ہیں سیاسی دانوں کو خود ہی بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ریاست کے فرائض کی ادائیگی میں اپنا کردار ادا کریں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ حملے کر کے فتح کرلیں گے۔

تو یہ نہیں ہوسکتا 9مئی کو ریاست اگر طاقت کا استعمال کرتی تو نقصان بہت زیادہ ہوتا ۔انہوں نے کہا کہ مجوزہ قوانین کے تحت کسی فرد یا جماعت پر پابندی لگتی ہے وہ ہونا چاہیے ۔انتخابات سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ الیکشن کمشنر نہیں ہیں انہیں نہیں معلوم کہ اس سال انتخابات ہونگے یا نہیں ۔انہوں نے کہا کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ 1971کے واقعات دوبار ہ ہونگے یہ 2023ہے اور اس میں ایسا کرنا ناممکن ہے ۔