|

وقتِ اشاعت :   May 24 – 2023

تربت:  بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا چھٹا مرکزی کمیٹی کا اجلاس 20 اور 21 مئی کو زیر صدارت مرکزی چیئرمین چنگیز بلوچ شال میں منعقد ہوا، جب کہ اجلاس کی کارروائی مرکزی سیکریٹری جنرل اورنگزیب بلوچ نے چلائی۔ اجلاس میں علاقائی و عالمی صورتحال، سیکریٹری رپورٹ، تنظیم، تنقید برائے تعمیر اور آئندہ کا لائحہ عمل سمیت دیگر تنظیمی امور زیر بحث رہے۔

اجلاس کا باقاعدہ آغاز بلوچستان سمیت دنیا بھر کے انقلابی شہداء￿ کی اعزاز میں دومنٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔ مرکزی چیئرمین نے تعارفی خطاب میں کہا کہ آج دنیا بھر کی سامراجی طاقتیں اپنے سیاسی و معاشی بحرانات، محکوم اقوام کی زیادہ لوٹ مار، ان کے وسائل پر قبضے، اور دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ منڈیوں کی تلاش اور سرمایہ کمانے کی سامراجی عزائم کو دوام بخشنے کے لیے بلاواسطہ جنگیں مسلط کر رہے ہیں۔

ایک دفعہ پھر موجودہ سیاسی و معاشی ورلڈ آرڈر تیزی سے بکھر کر مختلف سامراجی مفادات کے گرد از سرنو دھڑے بندیوں کی طرف جا رہی ہے۔ اسی اثناء￿ میں پاکستان جیسے کرایہ کے سیکورٹی اسٹیٹ جو ماضی میں مختلف سامراجی جنگی پروجیکٹس کا حصہ بن کر اپنا الّو سیدھا کرتی تھی، عالمی سامراج کی اندرونی بحرانات کے سبب پاکستان جیسے ممالک کا بوجھ نہیں اٹھا پا رہی ہیں۔

عالمی سامراج کی زوال کے ساتھ محکوم اقوام بھی سیاسی طور پر نظریاتی و ادارہ جاتی بحرانات کا شکار ہیں، اور مجموعی طور پر کسمپرسی اور مایوس کن حالات میں زندہ ہیں۔ لیکن تاریخ میں مسلسل دیکھا گیا ہے کہ شدید مایوس کن اور نا امید ادوار بھی اپنے بطن سے پرامید و انقلابی حالات کو جنم دینے کا سبب بنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج یہ ہم پر لازم ہوچکا ہے کہ اپنی جدوجہد کو سائنسی اور شعوری بنیادوں پر استوار کرکے کیڈرسازی کے عمل کو تیز تر کریں تاکہ مستقبل میں ابھرنے والے تحریکوں اور انقلابی حالات میں نظریہ اور لیڈرشپ کے بحران پر قابو پاکر بلوچ عوام کے حقوق اور وطن کا دفاع کریں۔

ساتھیوں نے مزید کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات ناقابل مصالحت حد تک تیز ترین ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ طاقت کے حصول کے جنگ میں سامراجی قوتوں کے درمیاں ایک دفعہ پھر نئی ورلڈ آرڈر قائم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ کو ایک سال کا زائد عرصہ ہونے جارہا ہے۔

مگر ایک طرف یورپ اور امریکی سامراج تو دوسری طرف روس اپنے اتحادیوں سمیت اس جنگ کو مزید ہوا دیتا ہوا دکھائی دے رہے ہیں، تاکہ ان جنگی حالات میں ہتھیار کی فراہمی کو ممکن بنا کر زیادہ سے زیادہ سرمایہ حاصل کیا جاسکے۔

یہ جنگ ایک طرف یوکرینی عوام کی زندگیوں پر بطور قہر نازل ہوئی تو دوسری جانب بڑے بڑے اسلحہ ساز کمپنیوں کے منافعوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں سری لنکا، یوتھوپیا، لبنان، یمن، سیریا میں مسلسل جنگوں، شدید انسانی بحرانات کے خلاف ابھرنے والے احتجاجات اور حال ہی میں سوڈان اور پاکستان میں ریاستی ملٹری و جوڈیشری اور بیوروکریسی کا دولت اور طاقت کے حصول کے لیے آپسی چپقلش نے ان ممالک کو شدید بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔بلوچستان اپنے اہم جغرافیائی حیثیت کے باعث تاریخی طور پر مختلف ادوار میں قبضہ گیروں کے زیر یلغار رہا ہے۔