|

وقتِ اشاعت :   June 4 – 2023

نوشکی: نیشنل پارٹی بی ایس او پجار کے زیر اہتمام میر خالد جان مینگل کی تعزیتی زیر صدارت ضلعی صدر رب نواز شاہ جبکہ مہمان خاص نیشنل پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر سردار آصف شیر جمالدینی پریس کلب نوشکی میں منعقد کیا گیا تعزیتی ریفرنس میں سیاسی سماجی ادبی تنظیموں کے عہدیداران اور ورکرز نے شرکت کی تعزیتی ریفرنس سے نیشنل پارٹی کے سی سی ممبر سردار آصف شیر جمالدینی صوبائی جنرل سیکرٹری خیر بخش بلوچ رخشان ریجنل سیکرٹری فاروق بلوچ ضلعی صدر رب نواز شام تحصیل آرگنائزر خان جان بلوچ بی این پی کے سینٹرل ایگزیکٹو ممبر میر خورشید احمد جمالدینی بی این پی کے مرکزی پروفیشنل سیکرٹری نزیر بلوچ پروفیسر غلام دستگیر صابر

بی ایس او پجار کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری وکرم بلوچ زونل صدر مشتاق بلوچ پام ادبی سرکل کے ڈاکٹر عالم عجیب راسکوہ ادبی دیوان کے ملک اکرم مینگل اوتان کلچر کے پروفیسر غمخوار حیات ڈاکٹر فیض مینگل لالا طاہر مینگل ماما فاروق پریس کلب کے صدر حاجی طیب یلانزئی سینیئر صحافی سعید بلوچ فیض امیر بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میر خالد مینگل ایک شخصیت ہوتے ہوئے ایک تحریک تھے ان کا بلوچ قومی تحریک میں صفحے اول کے ورکرز میں ہوتا ہے انہوں نے اپنے پوری زندگی خوداری بہادری کے ساتھ گزارا وہ بحیثیت سیاسی ورکر دنیا اور بلوچ بلوچستان کی سیاسی تاریخ پر ہمیشہ سے نظر رکھتے ہے

وہ بلوچ محکوم مظلوم اقوام کی بہترین مستقبل کیلئے ہمہ وقت اور مسلسل جدوجہد کرتے رہے بلوچ تحریک میں میر خالد مینگل جیسے ہزاروں گمنام سپاہی رہ چکے ہے جنہوں نے اپنے آنے والے نسل کی بہترین مستقبل کیلئے قربانیاں دی ہے آج میر خالد مینگل اگر یاد کیا جاتا ہے تو یہ ان کی سیاسی سوچ و فکر بصیرت کی نشانی ہے اس نے بلوچ تحریک بلوچ سیاسی اکابرین کو کافی قریب سے دیکھا اور ان کے سیاسی کلاس میں تربیت پائی انہوں نے اپنے سیاسی اکابرین کے نقشے قدم پر چل کر دکھا دیا کہ سیاست میں اگر پختہ نظریہ ہو تو ایک سیاسی ورکر کبھی گمنام نہیں ہوگا

انہوں نے زمانہ طالب علمی سے یہی درد محسوس کیا تھا کہ بلوچ دیگر اقوام کیطرح ایک قوم ان کی ایک شناخت اور تاریخ اور ایک سرزمین کے مالک ہے جس کیلئے ایک بہترین مستقبل بھی ہے انہوں نے بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو میر یوسف مستی خان شہید سردار اسد اللہ خان جمالدینی کے زیر سایہ رہے انہوں نے ہمیشہ سے ہر مسئلے کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا اپنے اصولی نظریاتی موقف پر ڈٹے اور انہوں نے اپنے زندگی میں کئی نشیب فراز دیکھیں لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے نظریات اور جدوجہد پر سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے پاوں کی قربانی دی لیکن وطن سے محبت کو اپنے نظریہ خاص بنایا جس کیلئے اسکا نام ہمیشہ بلوچ قومی تحریک میں زندہ و تابندہ رہیگا