|

وقتِ اشاعت :   June 4 – 2023

کوئٹہ: بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی صدر ووزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ وفاق کا بلوچستان کو مسلسل نظرانداز کرنا اور دیوار سے لگانا انتہائی غیر مناسب فعل ہے اگر وفاقی حکومت اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں سنجیدہ نہیں تو بلوچستان این ای سی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریگا،صوبے کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے ہم آئندہ مالی سال کے لئے ایک متوازن بجٹ بنانے کے قابل بھی نہیں ہیں اس بات میں دو رائے نہیں کہ وفاق کے تعاون کے بغیر بلوچستان کی پسماندگی کا خاتمہ ممکن نہیں۔یہاں جاری ہونے والے ایک پالیسی بیان میں وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ بلوچستان کو درپیش مالی اور ترقیاتی مسائل کے حل کیلئے وفاقی حکومت نتیجہ خیز اقدامات کرے اور صوبے کا آئینی حق دیا جائے۔

ہم سے کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد میں وفاقی حکومت کی سرد مہری باعث تشویش ہے اس طرح سے کسی وفاقی اکائی کو مسلسل نظرانداز کرنا اور دیوار سے لگانا انتہائی غیر مناسب فعل ہے وفاق کا یہ رویہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گااگر وفاقی حکومت اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں سنجیدہ نہیں تو بلوچستان این ای سی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریگاوفاق کا رویہ ثابت کرتا ہے کہ ماضی کی طرح یہ اجلاس بھی ہمارے لئے بے فائدہ ثابت ہو گاایسے اجلاس میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں فیصلہ سازی اور عملدرآمد کا فقدان ہو۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ گزشتہ سال بھی بلوچستان حکومت کی تجویز کردہ اسکیموں کو وفاقی پی ایس ڈی پی کا حصہ نہیں بنایا گیاسی پیک کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن سی پیک میں شامل منصوبوں کے ٹینڈر ہونے کے باوجود بھی انکے لئے فنڈز جاری نہیں کئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب زندگان کی بحالی کے لئے وزیراعظم کے اعلان کردہ دس ارب روپے سے ایک سال گزرنے کے باوجود بھی ایک روپیہ تک نہیں دیا گیاسیلاب متاثرین بے سرو سامانی کی حالت میں پڑے ہیں اور ہم انکے لئے کچھ نہیں کر پا رہے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم نے با رہا وفاقی حکومت تک اپنا موقف پہنچایا لیکن تاحال پزیرائی نہیں ملی وزیراعظم ہماری متعدد درخواستو ں کے باوجود ملاقات کا وقت نہیں دے رہے ہیں۔انہو ں نے کہا کہ آئین کے مطابق نئے این ایف سی کا اجراء بھی عرصہ سے تعطل کا شکار ہے ہم وفاق میں حکومت کے اہم اتحادی ہیں بلوچستان کو ملک کے مستقبل کی مسلمہ حیثیت بھی حاصل ہے وفاقی حکومت نے ہم سے کئے گئے وعدے تا حال پورے نہیں کئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبے کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے ہم آئندہ مالی سال کے لئے ایک متوازن بجٹ بنانے کے قابل بھی نہیں ہیں اس بات میں دو رائے نہیں کہ وفاق کے تعاون کے بغیر بلوچستان کی پسماندگی کا خاتمہ ممکن نہیں،این ایف سی شئیر وفاقی منصوبوں کے لئے فنڈز کا اجراء اور پی پی ایل کے زمہ واجبات کے حصول کے مسائل ابھی تک نہیں حل نہیں ہوئے ہیں۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت سے ان بنیادی مسائل کو حل نہیں کروا سکے ہیں جو باعث تشویش ہے وفاقی کابینہ میں نمائندگی رکھنے والی اپنی اتحادی جماعتوں سے بھی کہا ہے کہ کابینہ سمیت ہر متعلقہ وفاقی فورم پر بلوچستان کے مالی و دیگر مسائل اٹھائیں اس وقت وفاقی بجٹ کی تیاری تکمیل کے مراحل میں ہے بجٹ سے متعلق اہم ترین فورم این ای سی کا اجلاس منعقد کیا جا رہا ہے جب ہمارے موقف کو تائید ہی نہیں ملتی تو اس اجلاس میں ہماری شرکت بے معنی ہو گی اجلاس میں بلوچستان کے ترقیاتی امور کو ترجیحی بنیادوں پر زیر غور لا کر ان مسائل کے دیرپا حل کو یقینی بنا یا جائے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت این ای سی اجلاس میں بلوچستان کے منصوبوں کو ترجیح دینے کی یقین دہانی کراتی ہے تو ہم اجلاس میں شرکت پر غور کرینگے بصورت دیگر ہم اس اجلاس میں شریک نہیں ہونگے۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں بلوچستان میں دستیا ب ترقیاتی فنڈز کے استعمال کی شرح دیگر تمام صوبوں سے بہت بہتر ہے اگر ہمیں این ایف سی سے ہمارا پورا آئینی حصہ ملتا ہے تو ہم ترقیاتی عمل اور زیادہ بہتر اور جامع انداز میں آگے بڑھا سکتے ہیں اورہم عوام تک ترقی کے ثمرات پہنچا سکتے ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ وفاق کی ایک مضبوط اکائی ہونے کی حیثیت حاصل ہونے کے باوجود بلوچستان کو مسلسل نظر انداز کر نے کے منفی نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

صوبے کی پسماندگی میں مزید اضافہ ہر گز ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کا اعلان 1998ء کی مردم شماری کے مطابق کیا تھا اسوقت میں بلوچستان میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے صحیح مردم شماری نہیں ہوئی تھی اب جبکہ 2017ء میں اور اب 2023ء میں مردم شماری ہوئی ہے جس کے مطابق بلوچستان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے نئے این ایف سی ایوارڈ کا اعلان نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کو سالانہ 10ارب روپے سالانہ کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے جو ملک کے سب سے بڑے صوبے کے عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی کے مترادف ہے جسے کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

وزیراعلی نے کہا کہ این ایچ اے کا رویہ بھی درست نہیں ہے آواران ہوشاب موٹروے کے بھی 3ارب روپے این ایچ اے روک کا بیٹھا ہوا ہے اور جان بوجھ کر اس منصوبے کو مکمل نہیں کیا جارہا ہے اسی طرح ساوتھ بلوچستان پیکج کے تحت سڑکوں کے منصوبے تعطل کا شکار ہیں اسکے علاوہ گزشتہ سال آنے والے سیلاب سے کوئٹہ جیکب آباد شاہراہ اور کوئٹہ کراچی شاہراہ کو جو نقصان پہنچا تھااب تک این ایچ اے نے ان سڑکوں کو مرمت نہیں کیا جس کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں معطل اور مسافروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان منفرد جغرافیائی محل و وقوع طویل ساحل گہرے پانی کی بندرگاہ قیمتی معدنیات اور سی پیک کے علاوہ دیگر خصوصیات کا حامل خطہ ہے بلوچستان پاکستان کے روشن اور مستحکم مستقبل کی ضمانت فراہم کرتا ہے ضروری ہے کہ اس صوبے کو وہ اہمیت بھی دی جائے جسکا وہ حقدار ہے صرف زبانی کلامی باتوں اور نعروں سے ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارا وزیراعظم سے مطالبہ ہے کہ این ای سی کے اجلاس میں بلوچستان سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامعہ پہنانے کے منصوبوں کی منظوری دی جائے۔