|

وقتِ اشاعت :   June 7 – 2023

کوئٹہ: سینئر سیاستدان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں پی ایس ڈی پی کی سیاست ہورہی ہے، صوبے کے مسائل کی غلط تعبیر کرکے لوگوں کی توجہ اجتماعی قومی مسائل اور بحرانوں سے ہٹاکر انہیں نالیوں، ٹرانسفارمر اور ایک گلی کے مسائل میں الجھائے رکھا گیا،بلوچستان کا شعوری طبقہ صوبے میں پی ایس ڈی پی کی سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے حقیقی سیاسی کارکنوں کا راستہ روک رکھ کر باپ کو ایک پارٹی سے سینیٹر منتخب کرایا جاتا ہے بیٹے کے گلے میں دوسری پارٹی کا جھنڈا ڈالا جاتا ہے،بلوچستان کے لوگوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ پانچ سال تک ساحل وسائل کو فروخت کرکے راتوں رات سیاسی تبادلے ہونے والوں کے پیچھے چلیں گے یا ان پارٹیوں اور سیاسی شخصیات کا احتساب کریں گے جنہوں نے اس صوبے اور سیاست کو مذاق بنایا ہوا ہے۔

یہ بات انہوں نے بدھ کو بلوچستان اسمبلی کے سامنے گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن بلوچستان کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی، نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے اساتذہ سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کے تمام مطالبات کی حمایت کی انہوں نے کہا کہ حکومت اساتذہ سے باضابطہ مذاکرات کا آغاز کرکے ان کے تمام مطالبات تسلیم کرے کسی جعلی مذاکرات کو قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت لوگوں کے مسائل سے بے خبر ہے۔

اس کا صوبے کے مسائل اور لوگوں سے کوئی تعلق نہیں جس کے نتیجے میں آج صوبے بھر میں لوگ اپنے بنیادی حقوق کیلئے سراپا احتجاج ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیثت سوئی گیس کی مرہون منت ہے۔

سیندک کے قدرتی وسیلے کو کئی سال سے لوٹا جارہا ہے اور صوبے کے لوگوں کو مسائل میں الجھا کر ریکودک کو رات کے اندھیرے میں ایک ان کیمرہ اجلاس میں بلوچستان کے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے فروخت کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کا موجودہ اور آئندہ مالی سال کا بجٹ بن رہا ہے حکومت اور وزراء کو چائیے تھا کہ وہ اساتذہ سے مذاکرات کرکے ان کے مسائل حل کرتے مگر صوبے میں پی ایس ڈی پی سیاست ہورہی ہے بلوچستان کے مسائل کی غلط تعبیر کرکے صوبے کے لوگوں کی توجہ اجتماعی قومی مسائل اور بحرانوں سے ہٹانے کیلئے یہاں لوگوں کو نالیوں، ٹرانسفارمر اور ایک گلی کے مسائل میں الجھا دیا گیا ہے، انہوں نے کہاکہ وہ حکومتیں لوگوں کو جوابدہ ہوتی ہیں جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آتی ہیں یہاں ایک رات میں پارٹی بنتی ہے۔

اگلے دن اقتدار اس کے حوالہ کیا جاتا ہے وہ بلوچستان کے مسائل کیا حل کریگی،سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے حقیقی سیاسی کارکنوں کا راستہ روک رکھا ہے کوئٹہ سے متعدد مرتبہ رکن اسمبلی اور سینیٹر منتخب ہونے والے ایک جماعت کے بانی کے بیٹے کو لے جا کر ایک اور سیاسی جماعت میں شامل کیا جاتا ہے جس باپ کا بانی اپنے بیٹے کو مطمین نہیں کرپایا وہ آج بھی بلوچستان سے سینیٹ کا رکن ہے مگر اس نے بلوچستان کے کسی مسئلہ پر آج تک بات نہیں کی، ایک اور موصوف ہیں جن کی اپنی پارٹی ہے وہ خود صوبائی وزیر اور اُن کی اہلیہ دوسری پارٹی کی سینیٹر ہے۔

یہ بلوچستان کے لوگوں کیساتھ مذاق ہے اس مذاق کا راستہ شعوری جدوجہد کے ذریعے روکا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ اساتذہ کسی بھی معاشرہ کا شعوری طبقہ ہے،اساتذہ کے ہاتھ میں آئندہ نسلوں کا مستقبل ہے۔

اساتذہ کو آئندہ نسلوں کی ترقی، خوشحالی، عزت، وقار، ترقی اور ناموس کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چائیے، انہوں نے کہاکہ 2010ء میں بطور سینیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ایران کیساتھ بجلی کا معاہدہ کیا،معاہدہ کے تحت ایک سو میگا واٹ بجلی گوادر، 38 میگا واٹ بجلی مند کو فراہم کی گی ایک ہزار میگا واٹ بجلی کے منصوبہ پر دستخط کئے گئے جو تفتان کے راستہ بلوچستان اور پورے پاکستا ن کو ملے گی اور آج دو حکومتوں کے گزر جانے کے بعد موجودہ حکمران جاکر ان منصوبوں کا افتتاح کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اہم نے اور آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آیا پانچ سال تک ساحل وسائل کو فروخت کرکے راتوں رات سیاسی تبادلے ہونے والوں کو پیچھے چلنا ہے یا ان پارٹیوں اور سیاسی شخصیات کا احتساب کریں جنہوں نے اس صوبے اور سیاست کو مذاق بنایا ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کا شعوری طبقہ، وکلاء طالب علم، اساتذہ، پروفیسر، دانشور قوم وطن دوست سیاسی کارکن بلوچستان میں پی ایس ڈی پی کی سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔