|

وقتِ اشاعت :   June 15 – 2023

کوئٹہ: سینئر سیاستدان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی ، سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد نے کہا ہے کہ بلوچستان کے ساحل ، وسائل کو لوٹنے والے یہاں ووٹ اور عوام کی رائے کو بھی چوری کرلیتے ہیں، میڈیا میں بلوچستان سے زیادہ منرل واٹر کی بوتل کو اہمیت دی جاتی ہے۔

بندوق کی نوک پر بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا ،طاقتور حلقوںکو بلوچستان سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی، بلوچستان کے لوگوں کو صوبائی خودمختیاری دی جائے،بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ہنگامی بنیادوں پر حل ،ایک شفاف اور آزادنہ انتخابات کے ذریعے بلوچستان کے لوگوں کو اپنے نمائندے منتخب کرنے دیاجائے، بلوچستان کے تمام سیاسی کارکنان اپنی توجہ شعوری سیاست کی جانب مرکوز رکھتے ہوئے پہلے اپنا پھر کئی دہائیوں سے مسلط لوگوں ، سیاسی جماعتوں سمیت پورئے سیاسی عمل کا احتساب کریں۔

یہ بات انہوں نے گزشتہ شب سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد کی جانب سے ان کی رہائش گاہ پر کوئٹہ پریس کلب کے عہدیداروں کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ کے موقع پر بات چیت کرتے ہوئے کہی ، عشائیہ میں کوئٹہ پریس کلب ، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ،بلوچستان یونین آف جرنلسٹس اور ایڈیٹرز کونسل کے عہدراروں ، سینئر صحافیوں سمیت وزیراعظم ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کے کوآرڈینیٹر ارسلان احمد ، پاکستان ہاکی فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری سید حیدر حسین سمیت دیگر نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔سینئر سیاست دان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند اور کابینہ کے دیگر ارکان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ عہدہ ایک اختیار اور امتحان ہوتا ہے۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان کثیر القوامی ملک ہے یہاں ہزاروں سال سے مختلف اقوام اپنے اپنے رسم و رواج اور سرزمین پر آباد ہیں اور اس فیڈریشن میں بلوچستان کا رقبہ اور ساحل کو شامل کرکے 60 فیصد حصہ ہے۔ آئین کہتا ہے کہ وفاقی بجٹ ہو یا روزگار صوبے کا چھ فیصد حصہ بنتا ہے مگر دوسری جانب بلوچستان میں سو فیصد لوٹ مار ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ 2008ء￿ کے انتخابات سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے پیش آنے والے ایک بہت بڑے سانحہ کے بعد اسٹیبلمنشٹ عارضی طور پیچھے ہوئی جس کے نتیجے میں ہم نے بلوچستان میں حکومت بنائی مگر اس کے بعد بلوچستان میں اختیار حاصل کرنے کیلئے مصنوعی فرقہ واریت کو ہوا دی گئی۔

یہاں ووٹ اور عوام کی رائے بھی چوری کی جاتی ہے اور ایسے لوگوں کو مسلط کیا جاتا ہے جو ڈلیور نہیں کرسکتے اور ایسے لوگوں کو لایا جاتا ہے جنہوں نے ڈیل کی ہوتی ہے کہ وہ بلوچستان کے مسائل پر خاموش رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ساحل ، وسائل اور لوٹ مار پر پارلیمنٹ میں بیٹھے سب کے سب خاموش ہیں ، بلوچستان کے عمومی معاملات کو دیکھنے اور سننے والا کوئی نہیں میڈیا پر پابندی ہے ، میڈیا میں بلوچستان سے زیادہ منرل واٹر کی ایک بوتل کو اہمیت دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان تمام امور کو دیکھیں اپنی توجہ شعوری سیاست کی جانب مرکوز کرتے ہوئے پہلے اپنا پھر کئی دہائیوں سے مسلط لوگوں سیاسی جماعتوں اور سیاسی عمل کا احتساب کریں۔ یہاں سیاسی جماعتوں کو سرمایہ کاری کی بنیاد پر ٹھیکیدار چلارہے ہیں اور ان ٹھیکیداروں کو بلوچستان کے کوٹہ پر صوبائی و قومی اسمبلیوں اور سینیٹ میں بھیجا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کچھ پرانے لوگوں کو دوبارہ بلوچستان پر مسلط کرنے کی کی تیاری ہورہی ہے ،سیاسی کارکن اپنے آئندہ پانچ سال اور آئندہ نسل کے دفاع کیلئے اپنا ، اس نظام اور سیاسی عمل کا احتساب کریں۔

سیاسی کارکن میڈیا کے ذریعے ایجاد کئے گئے غیر سنجیدہ معاملات پر توجہ دینے کی بجائے اپنے صوبے کے معاملات پر توجہ دے کر صوبے کی بدحالی کے خلاف جدوجہد کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس سال غربت کی وجہ سے کئی ہزار بچے اسکولوں سے باہر ہیں سیاسی کارکن کو یہ سوچنا چائیے کہ ان کی آئندہ نسل تعلیم سے محروم ہوکر رہ گئی ہے اور صوبے کی آئندہ ایک پوری نسل ناخواندہ ررہ جائیگی۔سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد نے کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند اور کابینہ کے دیگر ارکان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ مہذب معاشروں کی تعمیر و ترقی میں صحافت کا ہمیشہ سے اہم کردار رہا ہے ۔

کوئٹہ پریس کلب کی نومنتخب کابینہ کیلئے دعاگو ہوں ہمارے خطے میں آزاد صحافت ایک جہاد ہے بلوچستان میں صحافیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نائن الیون سے پہلے بلوچستان ایک پرامن صوبہ تھا یہاں آباد تمام اقوام ایک گلدستہ کے مانند رہ رہے تھے ۔

تاہم 2001ء￿ کے بعد سے صوبے کے حالات خراب ہونے لگے بلوچستان میں نواب محمد اکبر خان بگٹی کو شہید کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ایک سازش کے تحت بلوچستان کے حالات کو خراب کیا گیا قبائلی روایات ، رسم و رواج کے حامل صوبے میں اے اور بی ایریا کو ختم کی گئی تاہم امن و امان کی صورتحال مزید مخدوش ہوتی جارہی ہے جبکہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت سے پہلے پنجاب اور سندھ کے راستے بلوچستان میں داخل ہونے والے لوگ اپنے آپ کو ذہنی طور پر محفوظ سمجھتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ بندوق کی نوک پر بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ بلوچستان اور وفاق کے درمیان دوریوں میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے متعلق پالیسیاں بنانے والے اپنی سابق پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پارٹیاں بنانے والوں نے لوگوں سے پیسے لے کر انہیں بلوچستان کا مزید استحصال کرنے کیلئے وزارتیں اور نمائندگی دی ہے۔

انہوں نے میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں 16 سو اسپتالوں میں سے ڈھائی سو اسپتال زمین پر موجود ہی نہیں ، چھ سو اسپتال غیر فعال ہیں ان کے لئے مختص اربوں روپے کہاں جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں تعلیم ، صحت ، لائیو اسٹاک ، زراعت کے شعبہ زبوں حالی کا شکار ہیں ہزاروں لوگ بے روزگار اور امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو ہر دور حکومت میں نظرانداز کیا گیا ہے یہاںکسی وفاقی پارٹی کا کردار نہیں رہا طاقتور حلقوںکو بلوچستان سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔

ایک شفاف اور آزادنہ انتخابات کے ذریعے بلوچستان کے لوگوں کو اپنے نمائندے منتخب کرنے دیاجائے۔ بلوچستان کے لوگوں کو صوبائی خودمختیاری دی جائے اور ایف سی کو اس کے آئینی حدود تک محدود کیا جائے۔ انہوںنے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جائے صوبے کے انتظامی معاملات کا اختیار صوبے کے نمائندوں کے حوالہ کیا جائے۔