ترقی یافتہ ممالک میں بارشیں باعث رحمت اور زراعت کی ترقی کیلئے تریاق ثابت ہوتیں ہیں لیکن یہاں بلوچستان میں معمولی بارش بھی رحمت کی بجائے زحمت یا یوں کہا جائے کہ عذاب بن کر عوام پر نازل ہوتی ہے جہاں موثر پلاننگ کا فقدان ہو اور جزا وسزا کا نام تک ہی نہ ہو جہاں عوام کو کچھ بھی نہ سمجھا جاتا ہوں وہاں اس طرح کی ناانصافی اور ظلم و ستم روز کا معمول بن جاتا ہے۔
سال 2022 کے تباہ کن بارشوں نے جہاں صوبے کے روڈ انفراسٹرکچر کو تباہ کیا وہاں زراعت لائیو اسٹاک رہائشی مکانات کے نقصانات کے ساتھ ساتھ بے شمار انسانی اموات کا بھی موجب بنا۔جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت نے متاثرہ علاقوں کی بحالی و ترقی کے بے شمار اور درجنوں وعدے وعید کرکے متاثرین کی وقتی دلجوئی کی یا یوں کہا جائے کہ عوام کے ساتھ ایک بار پھر سیاسی شعبدہ بازی کی گئی ۔حکمرانوں نے شاید ملکی معیشت کی ابتر صورتحال کو جواز بنا کر آج تک ایک دھیلے کا بھی کام عوام کی ریلیف و بحالی کے لیے نہیں کر سکے ہیں۔ اب دوبارہ مون سون بارشیں شروع ہو چکی ہیں بولان کا قومی شاہراہ پنجرہ پل کے مقام پر تین دن سے بند ہے مسافر، مریض،مردو خواتین،بوڑھے،جوان اور بچے بدحالی سے دوچار ہیں قارئین کے علم میں ہوگا ۔
اسی پنجرہ پل سے ایک وفاقی وزیر نوابزادہ شازین خان بگٹی، دو ایم این ایز نوابزادہ خالد خان مگسی، میر خان محمد جمالی اسپیکر جان محمد جمالی،چھ صوبائی وزراء میر سکندر خان عمرانی، نوابزادہ طارق مگسی،حاجی محمد خان لہڑی، ربابہ بلیدی، میر عمرخان جمالی، نوابزادہ گہرام خان بگٹی، تین اراکین اسمبلی سردار سرفراز خان ڈومکی، سردار یار محمد رند، میر سلیم خان کھوسو،دو سینیٹرز میر سرفراز خان بگٹی، سینیٹر ثناء جمالی سمیت قبائلی سرداروں نوابوں سیاسی شخصیات ججز وکلاء سیکورٹی فورسسز ایمبولینسیز اور بیچارے عوام کی مرکزی گزرگاہ یا سفری راستہ ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ ملک کے تینوں صوبوں سمیت آزاد کشمیر ایران افغانستان ترکیہ کو ملانے والی بین الاقوامی شاہراہ ہے جوکہ معمولی بارش میں بندش کا موجب بن جاتی ہے۔ گزشتہ سال کے تباہ کن بارشوں کے باعث بولان شاہراہ المعروف پنجرہ پل مکمل بہہ چکا تھا یا یوں کہیں کہ سیلابی ریلے نے پل کو اکھاڑ کر پھینک دیا تھا جس کے باعث ہزاروں مسافر بے یارومددگار پڑے ہوئے تھے،بارش بند ہونے اور پانی کم ہونے پر عوام پیدل نکل کر اپنی زندگیاں بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
اور اسی دوران ملک کے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے متاثرہ قومی شاہراہ بولان اور پنجرہ پل کا دورہ کیا تھا اور وزیر اعظم نے فوری طور پر متاثرہ قومی شاہراہ اور پل کی بحالی کیلئے این ایچ اے کو حکم دیا این ایچ اے نے اسی وقت عارضی طور پر شاہراہ اور پل پر مٹی ڈال کر اور چند ڈوزر کھڑے کرکے عوام کو راستہ فراہم کرنے کا ناٹک کیا تھا جس پر اسی وقت وِزیر اعظم شہباز اسپیڈ نے این ایچ ای کی شعبدہ بازی اور منافقت کو پہچانے بغیر مذکورہ عارضی راستے کی بحالی پر این ایچ اے کی تعریف کرنے کے ساتھ ہی نام نہاد ٹھیکیدار کو بطور لاکھوں روپے انعام اور ساتھ ہی این ایچ اے چیئرمین کو تین ماہ کے اندر مذکورہ پنجرہ پل کی تعمیر و بولان قومی شاہراہ کی بحالی کا حکم دے کر ہیلی کاپٹر پر رفو چکر ہو گئے تھے لیکن شومئی قسمت بلوچستان کے عوام گزشتہ 75 سالوں سے ہی اسی طرح کی زندگی ختم کرنے والی مشکلات سے دوچار ہوتے چلے آ رہے ہیں اور ہمارے ارباب اختیار اسمبلی کی یخ بستہ راہداریوں میں عوامی سہولیات کے بجائے اپنی ترجیحات کے حصول میں مگن ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے بلوچستان کے عوام کسمپرسی بدحالی محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بلوچستان میں انوکھے قوانین رائج ہیں یہاں تو انتخابات کا نام نہاد ڈھونگ رچا کر عوام کو ووٹ کے نام پر خوار کرکے ٹرک کے بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے اور بعد ازاں عوامی نمائندوں کے بجائے پسندیدہ لیڈران کا انتخاب کیا جاتا ہے اور پھر وہی پسندیدہ لیڈران عوامی ترقی و خوشحالی کے منصوبوں کے بجائے خلائی منصوبوں پر رقم خرچ کرکے خود ترقی و خوشحالی سے ہمکنار ہوتے چلے آ رہے ہیں لیکن عوام کی قسمت میں وہی بدحالی اور محرومیاں روز اول سے ہی جاری و ساری ہیں۔
گزشتہ ماہ قومی اسمبلی کے ایک سیشن میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے گوادر اور لسبیلہ کے معزز ممبر اسلم بھوتانی نے خطاب کرتے ہوئے ارباب اختیار سے اپیل کی کہ سابقہ ادوار میں بلوچستان کو پسند اور ناپسند کے فارمولے کے تحت عوامی ووٹ رکھنے والے نمائندوں کے بجائے منظور نظر اور سلیکٹڈ لوگوں کو بلوچستان اسمبلی پانچ سال کیلئے لیز پر دیا جاتا رہا جس کے باعث بلوچستان میں احساس محرومی و پسماندگی فروغ پاتا رہا ہے اب موجودہ ارباب اختیار سابقہ پالیسوں پر غور کریں اور پسند و ناپسند اور لیز پالیسی کے تحت اراکین اسمبلی منتخب کرنے یا بلوچستان اسمبلی کو پانچ سال لیز پر دینے کے بجائے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے حقیقی نمائندوں کے سپرد کریں یعنی صاف وشفاف انتخابات کے ذریعے عوامی حکومت قائم کی جائے تاکہ بلوچستان میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغار ہو سکے اوراہل بلوچستان میں احساس محرومی کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو سکے۔اب اگر معزز رکن اسلم بھوتانی صاحب کی اس تجویز کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو بلوچ قوم کی محکومی، بلوچستان کی بدحالی،پسماندگی،عدم ترقی کے ذمہ داران میں صرف اراکین اسمبلی یا بیورو کریسی نہیں بلکہ بااختیار حلقے بھی برابر کے شریک ہیں۔ بدقسمتی سے ملک کا گیم چینجر منصوبہ سی پیک کا مرکز و محور بھی بلوچستان ہی ہے۔
اور سی پیک جیسے عظیم منصوبے کے باوجود بلوچستان بدحالی اور عدم ترقی سے دوچار ہو تو اس سے حکمرانوں کی صوبے سے سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ بلوچستان کو اب اولیت دی جائے اور آبادی یا رقبہ کے بجائے پانچ سالہ پسماندگی عدم ترقی اور احساس محرومی کے خاتمے کیلئے میگا منصوبے شروع کرکے بلوچستان میں حقیقی ترقی کی بنیاد رکھی جائے اور بلوچستان کے عوام کو ووٹ کا آزادانہ حق اور ووٹ کو حقیقی معنوں میں عزت دی جائے تاکہ اہل بلوچستان خود اپنے نمائندوں کا انتخاب کر سکیں۔اسی طرح کا عمل ترقی،خوشحالی اور حقیقی جمہوریت و اکیسویں صدی کے جدید تقاضوں کے مطابق ہوگا۔