گزشتہ دنوں پنجرہ پل کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک غریب کی لاش ہے جو راستہ بند ہونے کی وجہ سے وہاں کئی گھنٹوں سے کھڑے رہنے کے بعد ایمبولینس کے ڈرائیور نے آخر کار لوگوں کو مجبور کر دیا کہ لاش خراب ہو جائے گی لہذا لاش کو پیدل پانی سے کندھا دے کر پار کیا جائے۔پھر اس لاش کو پانی کے اندر سے دوسری جانب لے جایا گیا۔ حکمران اور بیوروکرسی تو ویسے بھی ایسے واقعات کوسنجیدہ نہیں لیتے کاش کہ یہ لاش ان حکمرانوں میں سے کسی کے بیٹے کی ہوتی یا کسی وفاقی وزیر یا کسی بڑی سیاسی جماعت کے بھائی یا بیوی کی ہوتی تو پورے ملک کا الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا ملک کے صف اول کے صحافی اینکر حضرات چیخ رہے ہوتے،ماتم کر رہے ہوتے اورفوری طورپر فنڈز ریلیز ہو تے دھڑا دھڑ پنجرہ پل کا کام شروع ہو جاتا مگر ایک غریب کی لاش تھی جس کی آواز نقار خانے میں دب گئی۔ شاید میڈیا کے پاس ٹائم نہیں ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے یہ پل تعمیر نہیں ہو رہی۔ بلوچستان کے عوام اپنے پیاروں کی لاشوں کو سیلابی پانی اور بارش کے پانی سے کندھوں پر اٹھا اٹھا کر پانی سے پار کروا رہے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
پنجرہ پل پچھلے سال چھبیس اگست کو ایک بڑا سیلابی ریلے میں بہہ گیا تھا۔ پل ٹوٹنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہاں دونوں طرف پہاڑ ہیں جوایک دوسرے کے انتہائی قریب ہیں جن کے درمیان تقریباً ڈیڑھ سو سے دو سو فٹ کا فاصلہ بنتا ہے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ کتنا چھوٹا جگہ ہے اور جب بولان کے پہاڑوں میں بارش زیادہ ہوتی ہے تو بولان ندی میں سیلاب آ جاتا ہے پانی زیادہ اور گزرنے کی جگہ کم ہوتی ہے جس سے درخت، لکڑیاں، گھاس پھوس وغیرہ پانی میں بہہ کے آجاتی ہیں تو مزید پانی کا دباؤمزیدبڑھ جاتا ہے جس سے پل ٹوٹ جاتا ہے۔صورتحال یہ ہے کہ ایک چھوٹا سا سو ڈیڑھ سو فٹ کا پل اتنے پڑے پانی کے بہاؤ کو برداشت نہیں کرپاتا۔ مرکزی حکومت کی بلوچستان میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اسی وجہ سے معمولی کام بھی بہت مشکل اور ناممکن لگتا ہے۔ حکومت وقت شاید یہی سوچ رہی ہے کہ لاوارث بلوچستان ہے، چھوڑو گم کرو ان کو خوارو ذلیل ہونے دو، ویسے بھی ان کی حب الوطنی مشکوک ہے ان کو سزا ملنا چاہیے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم آزادی سے اب تک یہ سزا بھگتتے آ رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک ایسا پل ہے کہ جس سے تینوں صوبوں کی ٹریفک گزرتی ہے اور اس ملک کی معیشت میں کروڑوں روپے کا اضافہ کرتا ہے اس کو تعمیر نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا بلوچستان کے باسی اس ملک کے شہری نہیں ہیں۔۔۔؟سچ تو یہ ہے کہ اس وقت این ایچ اے صوبے سے ٹول ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کما رہی ہے مگر صوبے کے عوام کو کوئی سہولت میسر نہیں کر رہی، آئے روز روڈ حادثات میں زخمی اور ہلاک شدگان کی میتیں ان کے پیاروں کو تھما رہی ہے، یہی قاتل شاہراہیں آج تک نہ جانے کتنی ماؤں کی گوداجاڑ چکی ہیں آخر کب تک بلوچستان کے عوام سے سوتلی ماں جیسا سلوک رکھا جائے گا جبکہ چیف سیکرٹری بلوچستان نے پچھلے سال اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور وزیراعظم کے سامنے اعلان کیا تھا پنجرہ پل اسٹیل کا بن رہا ہے جو آج تک پتا نہیں کس کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا ہے جو ایک سال سے نہیں بن رہا ہے۔ خدارا چیف جسٹس اب آپ ہی بولان کی خستہ حال شاہراہ اور سیلاب سے ٹوٹے ہوئے پنجرہ پل کا نوٹس لیں تاکہ صوبے کے عوام کی مزید جانیں ضائع نہ ہوں۔