مرکز میں نگراں حکومت کے قیام کے حوالے سے دبئی میں پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بڑے رہنماؤں میں طویل ترین مشاورت جاری ہے مگر ابھی تک نگراں وزیراعظم کا نام فائنل نہیں ہو سکا ہے البتہ انتخابات مقررہ وقت پر کرانے پر اتفاق ہے۔
دبئی میں موجودہ سیاسی بیٹھک سے منسلک ذرائع کے مطابق ملک میں معاشی ایمرجنسی پر بھی گفتگو ہوئی جس کے تحت الیکشن کو 6 ماہ کے لیے مؤخر کرنے کے امکانات پر بھی گفتگو کی گئی مگر سیاسی نظام کی پختگی اور استحکام کے لیے دونوں سیاسی رہنما انتخابات کرانے کے حق میں بھی ہیں۔اطلاعات ہیں کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرادری کے درمیان طویل بیٹھک گزشہ دنوں ہوئی ہے مشاورت کا سلسلہ تقریباََ ڈھائی گھنٹے دبئی میں ایک بڑے ہوٹل کی میٹنگ روم میں جاری رہا۔
اس کے علاوہ مشاورت میں یہ بات کئی بار دہرائی گئی کہ نگران وزیراعظم مکمل طور پر غیرجانبدار اور غیرمتنازع ہونا چاہئے تاکہ انتخابی نتائج کو سب قبول کریں مگر اگلے چند ماہ کے دوران معاشی نظام کی بہتری کے لیے ’طاقتور معاشی ماہر‘ کی ضرورت پر بھی زور دیا جارہا ہے کیونکہ دونوں رہنماؤں کا اتفاق ہے کہ معاشی ابتری سے سیاسی پارٹیوں کے ووٹ بینک پر منفی اثر پڑے گا۔مذاکرات سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ فی الحال دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے پاکستان میں اپنی اپنی دیگر سیاسی قیادت کو بھی مذاکرات کے بارے میں آگاہ نہیں کیا ہے اس لیے کئی سیاسی رہنما دبئی کی بیٹھک پر لاعلمی کا اظہار کررہے ہیں۔ دونوں سیاسی رہنماؤں میں مزید بات چیت کی جائے گی جس کے لیے دیگر اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کواعتماد میں لیا جارہا ہے ۔
لیکن مشاورت میں کئی نام زیر بحث آئے خصوصاً جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی غیر سیاسی شخصیت پر طویل سیشن ہوا مگر حتمی فیصلہ تک نہیں ہوسکا۔اطلاعات ہیں کہ سابق وزیراعظم ’معاشی بہتری‘ کے لیے فوری اقدامات کرنے پر زور دے رہیں تاکہ عوام کو کچھ ریلیف دیا جاسکے مگر سابق صدر آصف زرداری ملک میں فوری انتخابات کے بعد معاشی بہتری کے لیے اقدامات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔دوسری جانب مسلم لیگ کے مرکزی رہنماء اور وفاقی وزیر خواجہ آصف کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ نگران وزیراعظم کے لیے پانچ ناموں کو شارٹ لسٹ کرلیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ نگران وزیراعظم کے عہدے کے لیے کسی سیاستدان کو منتخب کیا جائے گا۔خواجہ آصف کاکہناہے کہ اس سلسلے میں انہیں کوئی پیشکش نہیں کی گئی ہے۔
اس سے قبل ن لیگ کی جانب سے ہی نگراں وزیراعظم کے لیے اسحاق ڈار کانام سامنے لایاگیا تھا اتحادیوں کے شدید دباؤ کے بعد ن لیگی رہنماؤں نے تردید کرنا شروع کردی اور کہا کہ فی الحال اسحاق ڈار کے نام پر کوئی مشاورت نہیں ہوئی ہے۔ بہرحال اس وقت مرکزمیں نگراں حکومت کی تشکیل ایک اہم مسئلہ ہے۔ نگراں حکومت کو معیشت کو بہتر سمت دینے کی کوشش ضرورکرنی چائیے البتہ اپنی طرف سے کچھ زیادہ مداخلت نہیں کرنی چاہئے اس پر بھی اتحادی حکومت میں شامل جماعتیں بات کررہی ہیں تاکہ ایسا تاثر نہ جائے کہ ایک جانبدار نگراں سیٹ اپ کو لایا گیا ہے جبکہ دیگر ترامیم کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلاف پایاجاتا ہے۔ البتہ نگراں حکومت کی سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری شفاف انتخابات کرانا ہے جوسب کے لیے قابل قبول ہو۔ فی الحال مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔
مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کی زیادہ بیٹھکیں لگ رہی ہیں جبکہ دیگراتحادیوں کوبعد میں مشاورت میں شامل کیا جائے گاکیونکہ فیصلہ مشترکہ طور پر ہی قابل قبول ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نام کون سے آئینگے اور یہ قابل قبول ہونگے یا پھر نیا تنازعہ کھڑا ہوجائے گا اگر تنازعہ کھڑاہوا تو یقینا اس کے اثرات عام انتخابات پر ضرور پڑسکتے ہیں اس لئے مشترکہ طور پر نگراں حکومت کی تشکیل کو یقینی بنایاجائے تاکہ نظام آنے والے دنوں میں مضبوطی کی جانب گامزن ہوسکے۔