آٹھ اگست 2016کو شہید ہونیوالے 25سالہ کیمرہ مین محمود خان کا تعلق غریب پسماندہ اورمذہبی خاندان سے تھا کم عمری میں یتیم ہونے کے بعد اُنکی والدہ نے مشکل حالات میں بچوں کی پرورش کی اُنکے بڑے بھائی کو مسجد کا پیش امام ہونیکی وجہ سے گھر ملا تھا جہاں محمود اُنکے ساتھ رہتے تھے اُنہوں نے مختلف جگہ پرمحنت مزدوری کی وہ نجی سیکورٹی کمپنی کے گارڈ تھے اور ڈان نیوز کے دفتر کی ڈیوٹی پر مامور تھے جہاں 12 گھنٹے کی طویل ڈیوٹی کے دوران اُنہوں نے کچھ وقت نکال کر ایڈیٹنگ کا کام سیکھا اُنکی ایمانداری اور محنت دیکھتے ہوئے اُس وقت کے بیورو چیف سید علی شاہ نے اُنہیں ویڈیو ایڈیٹر بنا دیا اورپھر وہ 2014 میں کیمرہ مین بن گئے اس دوران اُنہوں نے گریجویشن بھی مکمل کی اُنکی اگلی تیاری ماس کمیونیکشن میں گریجویشن کرکے رپورٹر بننے کی تھی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔۔۔ یہ الفاظ ہیں بلوچستان میں وائس آف امریکہ کے کوآرڈنیٹر صحافی حفیظ اللہ شیرانی کے جو اُس وقت پاکستانی چینل ڈان نیوز میں بطور رپورٹر کام کر رہے تھے وہ کہتے ہیں کہ 8 اگست کوصبح دفتر پہنچتے ہی اُنہیں چینل کے مرکزی دفتر سے کال آئی کے کسی وکیل رہنما کو قتل کیا گیا ہے؟چیک کریں!کال کے بعد اُنہوں نے میڈیا چینل مانیٹر کیے جہاں یہ ٹکر ” بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر جاں بحق” چل رہے تھے اُنہوں نے فوری طور پر اپنے ذرائع سے تصدیق کے بعد چینل کو خبر دی پھرکیمرہ مین محمود خان اورا نجینئرکے ہمراہ لائیو وین میں اسپتال کی طرف روانہ ہوگئے راستے میں دیکھا کہ وکلا کی بڑی تعداد پیدل اسپتال کی طرف بھاگ رہی تھی۔حفیظ اللہ بتاتے ہیں کہ یہ صورتحال دیکھ کر محمود نے اُن سے کہا کہ حفیظ بھائی آپکی عادت ہے گپ شپ لگانے کی آپکے جاننے والے بہت ہیں یہاں زیادہ وقت نہیں لگانا ہم فوٹیج بنا کر فوری نکلیں گے ایسا نہ ہو کہ وکلا مشتعل ہو کر کیمرہ کو نقصان پہنچائیں محمود کی اس بات پر اُنہوں نے لائیو وین اسپتال سے باہر ہی کھڑی کروادی اور یہی طے کیا کہ وہ فوری واپس آئیں گے حفیظ شیرانی کے مطابق اُنہیں وکلا کے مشتعل ہونے کا تو اندازہ تھا لیکن دھماکے کا خیال اُنکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔وہ کہتے ہیں جیسے ہی گاڑی اسپتال کے پاس کھڑی کی محمود فوراَ اندر بھاگا مجھے بات کرنے کا موقع بھی نہیں دیا میں بھی محمود کے پیچھے گیا اور اسپتال میں موجود سینئر وکلا سے معلومات لینے کے بعد پولیس سرجن سے معلومات لینے 25 قدم آگے ہی مردہ خانے کی طرف گیا تھا کہ ذوردار دھماکہ ہوگیا اور کانوں میں سیٹی بجنا شروع ہوگئی۔ واپس آکر دیکھا تو لاشیں ہی لاشیں تھیں میں نے محمود کو چیخ چیخ کرپُکارنا شروع کردیا۔ کیونکہ جب میں جارہا تھا تب محمود کو ایک سیڑھی پر بلندی سے شارٹس بناتے دیکھا تھا۔ پانچ گھنٹے بعد معلوم ہوا کہ محمود شدید زخمی حالت میں سی ایم ایچ اسپتال میں ہے جسکے بعد اُن کا نام ہیلی کاپٹر کے زریعے کراچی شفٹ ہونیوالے شدید زخمیوں میں لکھوایا لیکن کراچی شفٹ ہونے سے قبل ہی محمود خان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے تھے۔حیفظ شیرانی نے نم آنکھوں سے بتایا کہ محمود اکثر مجھے نئے آئیڈیاز دیتا تھااور میرے اسکرپٹ کے تلفظ بھی درست کراتا تھا کیونکہ ڈان نیوز میرا پہلا ادارہ تھا اور محمود مجھ سے پہلے ادارے میں نیوز کیمرہ مین تھے۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے سابق جنرل سیکرٹری اور چینل 24 کے سینئر کیمرہ مین فتح شاکر نے جامعہ بلوچستان سے ماس کمیونیکشن کی ڈگری لی ہے وہ کہتے ہیں کہ” میں نے اورکچھ دیگر سینئر کیمرہ مینوں نے 2008 میں فزیکل سیفٹی اور فرسٹ ایڈ ورکشاپ کی تھیں وہی کچھ باتیں ذہن میں ہیں جو اپنے جونیئرکیمرہ مینوں کو بتاتا ہوں ” لیکن اُس کے باوجود کئی کیمرہ مین کہیں بھی جاتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے کہ آگے کیا ہے؟کیا ہوا ہے؟ اور کیا ہوسکتا ہے؟وہ یہ سوچے بنا سامنے نظر آنے والے واقعہ کو عکس بند کرنے پہنچ جاتے ہیں اور کسی گنجان آباد جگہ کوریج کے دوران وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ کچھ ہوگیا تو سب سے پہلے کس طرف پناہ لیں گے، فتح شاکر بیشترکیمرہ مینوں کے خود خبر بننے کی وجہ فزیکل سیفٹی ٹریننگ سے آگاہ نہ ہونا قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ 40 کیمرہ مین بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے رکن ہیں جبکہ میڈیا میں کام کرنیوالے کیمرہ مینوں کی تعداد 50سے زیادہ ہے لیکن پھر بھی صحافیوں پر کام کرنیوالی تنظیمیں کیمر ہ مینوں کو نظر انداز کرتی ہیں اگر کوئی کیمرہ مین کسی ورکشاپ یا ٹریننگ کیلئے درخواست بھی دیتے ہیں تو اُن کی سلیکشن نہیں ہوتی حالانکہ کئی کیمرہ مین اچھے رپورٹر بنے ہیں جبکہ موجودہ ڈیجیٹل دور میں رپورٹرز تو کیمرہ سیکھ رہے ہیں لیکن کیمرہ مین کو رپورٹنگ سیکھنے کا موقع فراہم نہیں کیا جارہا وہ کہتے ہیں کہ صحافیوں پر کام کرنیوالی تنظیمیں کم از کم کیمرہ مینوں کو جان کی حفاظت سے متعلق فزیکل سیفٹی ٹریننگ کا تو اہتمام کریں کیونکہ ایک بار پھر ملک میں حالات خودکش دھماکوں اور افراتفری کی طرف جا رہے ہیں۔
محمود خان کے ساتھ 8 اگست2016 کے دھماکے میں مارے جانیوالے شہزاد یحییٰ کے بھائی کامران بتاتے ہیں کہ اُنکے بڑے بھائی شہزاد آج ٹی وی سے منسلک تھے وہ جہاں بھی جاتے تھے اُن کی کیمرہ کٹ اُنکے ہمراہ ہوتی تھی وہ اپنی والدہ سے بہت محبت کرتے تھے اور زیادہ ترکام سے واپس آکر والدہ کے ساتھ وقت گزارتے اسی دوران اکثر اُنہیں کسی حادثے کی کوریج کیلئے فون آجاتا تھا اور وہ فوراََ گھر سے نکل جاتے تھے سال 2011سے2013تک شہر میں آئے روز دھماکوں اور کیمرہ مینوں کی شہادت کی خبریں سن کرگھر کے تمام افراد خصوصاََ والدہ اُنہیں میڈیا کی ملازمت ترک کرنے کا کہتی تھیں لیکن شہزاد ہمیشہ والدہ کی بات کو ہنس کر ٹال دیتے تھے شہزادہ یحییٰ بیشتر اوقات اپنے بھائیوں اور دوستوں کو کہتے تھے کہ بس جب موت آئے اللہ کلمہ پڑھنا نصیب فرمائے کامران کہتے ہیں کہ 8 اگست 2016 کو جب دھماکے کی آواز سنی تو ہم بھائی کیلئے پریشان ہوئے اور رابطے کی کوشش کی تو شہزاد کا نمبر بند جارہاتھا اُس وقت والدہ اور بھابھی سمیت دیگر گھر والوں کی کیفیت الفاظ میں بتانا ممکن نہیں شہزاد کی شہادت کے اگلے روز اُنکے کیمرے میں ریکارڈ کی گئی ویڈیو دیکھی گئی جس میں دھماکہ ہوتا ہے اور شہزاد کی درد سے بھرپور آواز سنائی دیتی ہے جس میں وہ کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں شہزاد یحییٰ نے سوگواروں میں بیوہ ایک بیٹی اور 2 بیٹے چھوڑے ہیں۔
سنیئر صحافی شہیدارشد مستوئی کی بلوچستان میں مارے گئے صحافیوں سے متعلق مرتب کی گئی دستاویز جسے اُنکے بھائی عابد میرنے اپڈیٹ رکھا ہے کہ مطابق بلوچستان میں مختلف واقعات کا شکار ہونیوالے صحافیوں میں 5 کیمرہ مین اور ایک فوٹوگرافرشامل ہیں جو خود خبر بن گئے جن میں 16اپریل 2010 کو فرقہ وارنہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ پیش آیا تو حسب روایات سماء نیوز کے سنیئر کیمرہ مین ملک عارف بھی دیگر ساتھیوں کے ساتھ کیمرہ کے ہمراہ سول اسپتال شعبہ حادثات پہنچے جہاں کچھ دیر میں ہونیوالے خودکش دھماکے میں وہ بھی مارے گئے۔3 ستمبر 2010 کو سماء نیوز کے کیمرہ مین اعجاز رئیسانی القدس ریلی کی کوریج پر موجود تھے کہ خودکش دھماکہ ہوگیا جس میں اعجاز رئیسانی تین دن شدید زخمی رہنے کے بعد 6 ستمبر 2010کو ابدی نیند سو گئے۔سماء نیوز کے 35 سالہ کیمرہ مین عمران شیخ 10جنوری 2013کو علمدار روڈ پر ہونیوالے یکے بعد دیگرے ہونیوالے بم دھماکے کی کوریج کے دوران رپورٹر سیف الرحمان کے ساتھ جاں بحق ہوگئے۔10 جنوری 2013کے ہی دھماکے میں نیوز نیٹ ورک انٹرنیشنل(این این آئی) کے ساتھ بطور کمپیوٹر آپریٹر اور فوٹو جرنلسٹ کام کرنیوالے محمد اقبال بھی فرائض کی ادائیگی کے دوران دوسرے دھماکے میں مارے گئے تھے 8 اگست 2016 کو وکلا پر ہونیوالے خودکش دھماکے میں آج نیوز کے کیمرہ مین شہزاد یحییٰ اور ڈان نیوز کے کیمرہ مین محمودخان بھی موت کی نذرہوگئے تھے۔
کوئٹہ کے خیزی چوک پر 5 ستمبر 2019 کو ہونیوالے دھماکے کی کوریج کے دوران دوسرے دھماکے میں شدید زخمی ہونیوالے اُس وقت کے دنیا ٹی وی کے کیمرہ مین رحمت علی کے دل کے قریب آج بھی بارودی مواد میں استعمال ہونیوالا لوہے کا ٹکڑا موجود ہے جو جان لیوا ثابت ہونے کے ڈر سے ڈاکٹروں نے آپریشن کے دوران نہیں نکالا رحمت علی بتاتے ہیں کہ وہ دنیا ٹی وی میں تھے کہ اُنہیں رپورٹر نے کہا دھماکہ ہوا ہے یہ سنتے ہی اُنہوں نے فوری طور پر کیمرہ کٹ تیار کی اور ریڈی ہوکر لائیو وین میں بیٹھ گئے رحمت کے مطابق وہ اور اُنکے ساتھ ڈیوٹی پر موجود رپورٹر ابرار دھماکے کی جگہ سے کچھ ہی فاصلے پر تھے کہ دوسرا دھماکہ ہوگیا جس میں رپورٹر ابرار اور رحمت شدید زخمی ہوگئے کیمرہ مین رحمت کو تھوڑا زیادہ قریب ہونیکی وجہ سے سینے اور کمر پر بھی زخم آئے۔
سنیئر سپرئنڈنٹ پولیس آپریشنز کوئٹہ کیپٹن رئٹائرڈ ذوہیب محسن کہتے ہیں کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات میں پولیس کیلئے سب سے مشکل کام متاثرہ جگہ سے رش کم کرنا ہوتا ہے کیونکہ واقعہ ہونے کے بعد عوام کا ہجوم لگ جاتا ہے جسکی وجہ سے پولیس کو معاملات کو کنٹرول کرنے اور تفتیش کرنے میں مشکل آتی ہے بیشتر اوقات کسی دھماکے کہ بعد عوام کا رش نہیں لگتا کیونکہ لوگ وہا ں سے بھاگ جاتے ہیں لیکن اس دوران پولیس کیلئے میڈیا نمائندوں اور کیمرہ مینوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے خاص کر میڈیا کیمرہ مینوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ خاص دھماکے کی جگہ کیمرے میں ریکارڈ کریں جسکی وجہ سے کیمرہ مین کرائم سین کے اندر بھی آجاتے ہیں جنہیں پولیس اور سیکورٹی ادارے منع کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عوام کو تو ڈرا دھمکا کر بھگایا جاسکتا ہے لیکن میڈیا کوڈیل کر نا مشکل ہوتا ہے جسکے لیے پھر ہم موقع پر موجود کسی سنیئر کرائم رپورٹر سے کہتے ہیں کہ میڈیا کو آگے آنے سے روکیں ایس ایس پی آپریشنزذوہیب محسن کہتے ہیں کہ کرائم رپورٹرز کی طرح میڈیا کہ کیمرہ مینوں کو بھی کرائم سین کور کرنے سے متعلق ایس او پیز کو فالو کرنا چاہئے کیو نکہ یہ اُنکی بھی حفاظت کیلئے ضروری ہے۔
اے آر وائے نیوز کے کوئٹہ میں بیورو چیف مصطفےٰ ترین کہتے ہیں کہ کئی کیمرہ مین مارے گئے کئی زخمی ہوئے لیکن کسی نے بھی یہ سوال نہیں اُٹھایا کہ آخر یہ کیمرہ مین مارے کیوں جا رہے ہیں 15 سال قبل جب الیکٹرونک میڈیا میں ریس لگی تو کیمرہ مین اس میں کود گئے جسکی وجہ سے کئی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ستم ظرفی یہ ہے کہ ایک دو اداروں کے علاوہ کسی ادارے نے اپنے رپورٹر اور کیمرہ مین کو حفاظتی کٹ تک نہیں دی جو تنظیمیں صحافیوں پر کام کررہی ہیں سوائے ایک دو تنظیموں کے تمام نے پیسہ ہڑپ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے آج تک جتنی ٹریننگ کرائی گئی ہیں انکا حاصل وصول کیا ہوا ہے یہ تو کہا جاتا ہے کہ کیمرہ مینوں کی تعلیم کم ہے وہ معیار پر پورا نہیں اُتر رہے لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ کس حالات میں اور کس طرح کام کر رہے ہیں اُنہوں نے کہا کہ کیمرہ مینوں کو حفاظتی تربیت کی اشد ضرورت ہے جسکے کیلئے صحافیوں پر کام کرنیوالی تنظیم کو کردار ادا کرنا چاہئے جبکہ چینل کے بیورو چیف صاحبان کو بھی اپنے اسٹاف کو تربیتی ورک شاپس پر جانے کیلئے چھٹی کے معاملات میں آسانی رکھنی چاہیے۔
محکمہ اطلات کے سیکرٹری حمزہ شفاقت کہتے ہیں کہ حکومت کی شروع سے کوشش رہی ہے کہ وہ صحافیوں کی بہتری کیلئے بھرپور کردار ادا کرے ہم نے کوئٹہ پریس کلب کے ساتھ ملکر صحافیوں کی حفاظت کے قانون کا ڈرافٹ بنایا ہے جو جلد آنیوالے کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا اور قانون کی منظوری ہو جائے گی صحافیوں کی فلاح و بہبود کیلئے فنڈ مختص ہے جسکے لیے محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل کی سربراہی میں کوئٹہ پریس کلب اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدور پر مشتمل کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جسکے تحت صحافیوں کی مشکل میں مالی طور پر معاونت کی جاتی ہے تربیتی ورکشاپ کے حوالے سے اُنکا کہنا تھا کہ محدود وسائل میں رہتے ہوئے محکمے نے تعلقات عامہ کے سرکاری ملازمین کیلئے کافی تربیتی ورکشاپس کروائیں ہیں تاکہ محکمے کے ملازمین کو جدید تقاضوں کے مطابق صحافتی میدان میں سرگرم رکھاجاسکے لیکن نجی میڈیا کیلئے ایسی کوئی بھی ٹریننگ یا تربیت کا انعقاد نہیں کیا گیا ہے لیکن مستقبل میں اس حوالے سے کام کرنے کا ارادہ ہے۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر اور نجی چینل کے بیورو چیف عرفان سعید کہتے ہیں کہ ویسے تو جنگ ذدہ حالات میں کام کرنا صحافیوں کیلئے مشکل ہوتا ہی ہے اگر ویڈیو جرنلسٹ کی بات کریں تو ٹی وی چینل میں کیمرہ مین کا اہم کلیدی کردار ہے کیونکہ ٹی وی کی خبر اُس وقت تک مکمل نہیں جب تک آپ کے پاس فوٹیج نہ ہو کوئی بھی واقعہ ہوتا ہے تو کیمرہ مین فرنٹ لائن پر نظر آتا ہے اگر صرف ہم کورونا کی وبا کے دوران ہی دیکھیں تو کیمرہ مین اسپتالوں اور وارڈز میں کوریج کر رہے تھے اور پھر کئی میڈیا ورکز کورنا سے متاثر بھی ہوئے عرفان سعید کہتے ہیں کہ بلوچستان میں ایک واقعہ کے بعد دھماکے ہونیکا جب سلسلہ شروع ہوا تو اس میں ہمارے کافی ساتھی متاثر ہوئے جسکے بعد یونین اور پریس کلب کی سطح پرتمام میڈیا چینلز کے بیورو چیف صاحبان کی مشاورت سے ایس او پیز طے کی گئیں کہ بریکنگ کی دوڑ میں کوئی بھی جان رسک پر نہیں ڈالے گا ایسا کوئی واقعہ ہوگا تو تمام لائیو وین پریس کلب جمع ہونگی اور پھر معاملے کی نوعیت دیکھ کر آگے پلان ترتیب دیا جائے گا جس سے کافی حد تک بہتری آئی ہے اُنہوں نے کہا کہ ویڈیو اور فوٹو جرنلسٹس کیلئے تربیتی ورکشاپس میں مواقعے کم ہوتے ہیں جنہیں بڑھانے کی ضرورت ہے اگر کوئی بھی ادارہ تربیتی ورکشاپ کروانا چاہے تو کوئٹہ پریس کلب اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس اُنکے ساتھ بھرپور تعاون کرینگے اور اسے اقدام کو سراہا جائے گا۔