8 اگست 2016 بلوچستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن تھا کہ جس کو بھلانے میں صدیاں درکار ہوں گی کیونکہ اس روز صوبے اور ملک میں شعوری جدوجہد کے سرخیلوں، امن کے پیامبروں، سماجی انصاف کے علمبرداروں، ترقی پسند سوچ کے مفکروں، عدلیہ کی وقار کی سربلندی کے پروانوں کے قافلے کے ہردل اؤل دستے میں شامل ستر وکلاء کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشتگردی کا نشانہ بناکر ہم سے جسمانی طور پر الگ کیا گیا۔
اور ساتھ ہی سیاسی،سماجی اور ثقافتی تبدیلی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرکے غم و اندوہ کی فضا پیدا کر کے معاشرے میں خوف و ہراس کے ماحول کو فروغ دیا گیا، اس واقعہ کے اثرات سے ملک اور بالخصوص صوبے میں خوف کے بادل منڈلانے رہتے ہیں اس سیاہ دن صبح میں جب ہائیکورٹ کے دروازے پر پہنچی تو اس اندوہ ناک واقعے کی اطلاع ملی، کشمکش کی صورتحال میں سی ایم ایچ کی جانب روانہ ہوئی دربدری اور بے بسی اس دن مجھ پر آشکار تھی ہر طرف آہیں، چیخ و پکار سسکیاں، خون آلود جسم چہرے دیکھ کر روح بھی کانپ گئی موت ایک حقیقت ہے اور ہر ذی شعور کو اس کا مزہ چکھنا ہے لیکن اس طرح کی مجموعی اموات جہاں انسانوں کے ساتھ ساتھ فضا بھی سوگوار ہو اسے موت نہیں کہا جاسکتا، اس واقعہ میں اپنے استادوں، رہنماؤں اور ساتھیوں کی دائمی جدائی کے دکھ نے کربلا کی یاد تازہ کردی یہ بھی حقیقت ہے کہ کربلا شہداء کی طرح ہمارے شہداء کو بھی اس موت نے ابدی حیات بخش دی، ہم وکلاء کی ایک الگ دنیا ہے ہماری زندگی عدالت اور چیمبر کے درمیان لٹکی ہوئی ہوتی ہے۔
ہمارے تعلق رشتے اور سماجی رابطے بھی ان دو مراکز کے درمیان ہوتے ہیں ایک طرف کلائنٹ دوسری طرف وکلاء برادری زندگی میں یہی خاندان یہی تعلق یہی رشتے یہی ناطے ہیں،جس کی وجہ سے خاندانی رشتوں سے بڑھ کر انسیت ہوتی ہے، بلوچستان میں پیش آنے والا عدالتی تاریخ میں یہ دنیا کا بہت بڑا واقعہ ہے جس میں ایک ہی شعبے سے تعلق رکھنے والے ستر کے قریب ساتھیوں کی شہادت ہوئی اور ایک سو سے زائد زخمی ہوئے جن میں بہت سے معذور ہوچکے ہیں واقعے والے دن سی ایم ایچ کے ایک کونے میں شیڈ کے نیچے اپنے درجنوں ساتھیوں کو لاچارگی کی کیفیت میں زمین پر پڑے سفید چادر اور مارکر سے نام لکھے ہوئے باز محمد کاکڑ، اشرف سلہری، شبیر زہری، چاکر رند، سنگت جمالدینی، محب اللہ شاہ، نقیب ترین، و دیگر بین کرتی ایک لاش سے دوسری لاش، پھر لواحقین کی جانب سے چیخوں سسکیوں میں لاشیں کے جانے کا کربناک منظر، زخمیوں کے بارے میں غیر یقینی صورتحال قیامت صغریٰ کا منظر پیش کر رہی تھی، یہ اندوہناک لمحے میرے لئے بھیانک خواب کی طرح ہیں زندگی کی بے ثباتی، بے بسی اور موت ظلم و بربریت، بے حسی اور معاشرتی جہالت کی وہ تصویر جو اس دن محسوس کی وہ ناقابل بیان ہے۔
میرے معتبر استادوں میں سے ایک درخشاں نام محترم قاہر شاہ کا ہے جو ایک سنجیدہ نفیس اور انتہائی قابل وکیل تھے اپنی زندگی کے کئی سال شعبہ وکالت کو دے کر وہ بلوچستان میں وکلاء کی تاریخ میں امر ہوگئے سو سے زائد شائع شدہ Reported judgements فیصلہ جات کی روداد تاقیامت انصاف کی فراہمی میں نئے وکلا ء کی رہنمائی کرتے رہیں گے، یہ امر واضح ہے کہ جانے والے واپس نہیں آ سکتے لیکن چراغ سے چراغ جلنے والا قدیم سلسلہ رکنے والا نہیں کئی سالوں کی انتھک محنت اور جدوجہد کے بعد وہ 29 سال کے بعد وکلاء کے سب سے بڑے ادارے بار کونسل کے وائس چیئرمین منتخب ہوئے ایس اے ایم قادری کے مطابق قاہر شاہ نے اپنے شعبے پر بھرپور توجہ دیکر اپنا نام کمایا ماتحت عدالتوں سے عدالت عالیہ اور وہاں سے عدالت عظمیٰ اور پھر بار کے سیاسی میدان میں کامیاب انسان کی طرح آگے بڑھتے چلے گئے اور یوں عملاً بڑے انسان بن گئے وہ سادہ اور نفیس طبیعت کے مالک تھے ان سے متعلق ان کی جونئیر ثروت ایڈوکیٹ بتاتی ہیں کہ وہ وکالت کے پیشے کا تقدس رکھنے والی ہستی تھے پیسہ کمانا ان کی منزل مقصود ہرگز نہیں تھا کئی بار غریب لاچار بے بس ملزمان کے قتل جیسے مقدمات بھی بغیر فیس کے لڑتے دیکھے ایک مرتبہ سات ملزمان کو مقدمے سے بری کرایا تو انہوں نے ایک سو روپے فیس کی شکل میں ادائیگی کی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے یہ فیس لیکر اپنے منشی کو دی ایسے بلند پایہ اخلاق و کردار کے مالک وکلاء ناپید ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بعض وکلاء چند پیسوں کے عوض اپنے ہی وکلاء کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں، شہید باز محمد کاکڑ جرات و بہادری کا نام تھے ان کا نام وکلاء جدوجہد کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا وہ زمانہ طالب علمی سے سیاسی جدوجہد کا حصہ بنے، بقول ڈاکٹر لعل کے ان کے والد ان کی سیاسی جدوجہد میں شرکت سے نالاں تھے اور مجھے سمجھانے کی ذمہ داری دی میں اس وقت بی ایم سی کے ہاسٹل میں رہائش پذیر تھا باز محمد کو لے کر آیا اور اپنے ساتھ رکھا، ایک ہفتے بعد اچانک وہ نکل کر چلے گئے بہت تلاش کیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ جامعہ بلوچستان کوئٹہ میں کسی معاملے میں ہر اول کردار ادا کررہے ہیں جب میں نے ان سے سوال کیا کہ یہ کیا ہے۔
تو انہوں نے جواب دیا کہ میں قیدی نہیں ہوں۔ آزاد سوچ کا مالک ہوں اور اپنی زندگی اپنے طرز فکر کے مطابق گزاروں گا وکلالت کے دوران بھی خدمت خلق کا عنصر حاوی رہا، ان کی شہادت کے بعد بہت سے پوشیدہ فلاحی پہلو سامنے آئے جن میں سے ایک یہ تھا کہ وہ بہت سے ناداروں کی کفالت کا کام بھی سرانجام دیتے تھے وہ خود تو چلے گئے لیکن بہت سی یادیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئے، گو کہ میرا تعلق باز محمد کاکڑ کے پینل سے نہیں تھا۔وہ اکثر اصرار کرتے رہتے تھے کہ میرا پینل جوائن کریں۔ آخری موقع پر DBI کے سامنے ہاتھ اوپر کرکے اپنے مخصوص انداز میں مجھے کہا لیڈر پینل جوائن کرو، شہادت کے بعد علی کاکڑ جو ہمارے چھوٹے بھائی جیسے ہیں ان کے ساتھ مسلم باغ جاکر میں نے پروفیشنل پینل جوائن کیا بازو بھائی جسمانی طور پر ساتھ نہیں ہیں لیکن وڑن کی صورت میں ساتھ ہیں۔
یادوں کے سفینے لہروں پہ رواں ہیں
ان آنکھوں کے سبھی خواب ہماری آنکھوں میں جواں ہیں
داؤد کاسی کا نام تاریخ میں ایک وضع دار وکیل کے طور پر یاد رہے گا۔کم عمری میں اپنی ذہانت و قابلیت سے بلند مقام پایا۔ وہ اور میں دوران انتخابات ایک کی پینل کے امیدوار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہی کابینہ کا حصہ بھی رہے۔وہ انتہائی خوش اخلاق اور باوقار انسان تھے۔ ان کے جونئیر ان کا نام آتے ہی اب بھی اشک بار ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر نامی گرامی اداروں میں لیکچر بھی دئیے۔داؤد جان تاقیامت بلوچستان کی عدلیہ کی تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔ آٹھ اگست کو سرفراز شیخ، نصیر لانگو، سنگت جمالدینی، گل زرین ساجد کاسی جیسے نوجوان جہد کاراجل کی لپیٹ میں آئے۔ کس کا نام لکھوں کس کے کام گنواؤں، کس کے کردار کو اجاگر کروں، ہر چہرہ خوبصورت، ہر کردار حسین، ہر انسان مہربان تھا ان کی یادیں صدیوں تک ہمارے دماغوں میں زندہ رہیں گی اور ان کی آواز کانوں میں گونجتی رہے گی، رشید کھوکھر، منظر صدیق، نوراالدین رخشانی، بلال کاسی، غلام درانی، عمران شیخ، فیروز ترین، عسکر خان، چاکر رند، قاضی بشیر سمیت تمام شہدا کو سرخ سلام اور خراج عقیدت کے ساتھ یہ الفاظ کہ
پھولوں کی گود میں بہاروں میں رہو گے
تم گل زمین کے جان نثاروں میں رہو گے
بہتے رہو گے پانیوں کے ساتھ جو بہ جو
یا پیاس کے مینار کناروں میں رہو گے
مخمور وادیوں کی ہواؤں میں دھڑکتے
خاموشیوں کے شہر میں ایثاروں میں رہو گے
کبھی کھلتے ہوئے ملو گے کیاری میں سہت کی
یا بے و وطن خلا میں ستاروں میں رہوگے
ایماں عاشقی ہو تو کبھی رنگ خاکی ہو
زکر وفا ہو اپنے ہی پیاروں میں رہو گے