|

وقتِ اشاعت :   August 9 – 2023


پاکستان کے دیگر صوبوں کے نسبت شورش زدہ بلوچستان میں کئی دہائیوں سے  صحافتی خدمات سر انجام دینا مشکل تصور کیا جاتا ہے صحافی  سب سے زیادہ مشکلات سے دوچار ہیں اور شاید اسی وجہ سے  پاکستان کو بین الاقوامی سطح پرصحافیوں کے لیے مشکل ترین علاقہ قرار دیا گیا ہے۔  بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں دو دہائیوں میں 41 صحافی قتل ہو چکے ہیں۔ جن میں سے 19یا 20 ایسے  تھے جنہیں باقاعدہ ہدف بنا کر قتل کیا گیا اور کئی صحافی دھماکوں کی  نظر ہو ئے۔
 
بلوچستان میں  صحافی صرف انتہا پسندوں دہشت گردوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے حملوں کا نشانہ نہیں بن رہے بلکہ مبینہ طور پر حکومت بھی آزادی صحافت کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے میں پیش پیش رہی ہے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے ہمیشہ بلوچستان کے ساتھ ایک جنگ زدہ علاقے جیسا  سلوک کیا ہے۔ صحافیوں کے لیے اب صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ جیسے ایک طرف سمندر ہو اور دوسری طرف پہاڑ۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں صحافیوں کی تعداد اگرچہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں کافی کم ہے لیکن ان کو اکثر و بیشتر مسلح تنظیموں یا ریاستی اداروں کی مرضی کی خبریں چلانے کے لیے دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ بعض اوقات انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔
 
دانش مراد بھی گزشتہ پانچ سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں اور ایک نجی چینل میں بطور رپورٹر خدمات سر انجام دے رہے ہے ۔وہ بتاتے ہے کہ صحافت میں آنا آیک شوق تھا لیکن اب کسی چیلنج سے کم نہیں ۔
 
دانش مراد بتاتے ہیں کہ انہوں نے حال ہی میں ایک اسٹوری کی تھا جس میں پولیس کی ایف آئی آر کا حوالہ بھی موجود تھا جس پریک صوبائی وزیر  اور انکے کارکنوں کی جانب سے کردار کشی کی گئی اور سخت نتائج کے دھمکی بھی دی گئی جس سے نہ صرف ان کی ذہنی صحت پر برا اثر پڑا بلکہ جان کو بھی خطرات لاحق ہوئے۔ جب کی  صوبائی وزیر کے حامیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف باقاعدگی کردار کشی کی مہم چلائی ۔
 
دانش مراد مزید بتاتے ہیں بلوچستان میں صحافیوں کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دو دہائیوں میں 41  صحافی، صحافتی خدمات سر انجام دیتے ہوئے جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔
 
وہ بتاتے ہیں جب بھی ہم کہیں نیوز کوریج کے لیے جاتے ہیں تو ہم چند لمحوں کے لیے موت کو بھول جاتے ہیں کیونکہ ہمارے کچھ دوست کیمرے اور مائک ہاتھ میں تھامے خوشی خوشی فرض کے ادائیگی کے لیے گئے لیکن واپسی پر ان کے خاندان کو انکی لاش ملی اسی لیے  اب بھی انہیں گھر والوں کی طرف سے صحافت چھوڑ نے کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ کوئی اور پیشہ اختیار کروں
 
ضلع خضدار بلوچستان میں صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک ضلع تصور کیا جاتا ہے کیونکہ کوئٹہ کے بعد سب سے زیادہ صحافی تربت اور خضدار میں ہی قتل کیا جا چکا ہے۔
خضدار سے تعلق رکھنے والے صحافی جبار حسنی اب سمجھتے ہیں کہ خضدار میں صحافت کرنا انگاروں پر چلنے کے مترادف ہے ۔
 
وہ بتاتے ہیں کہ خصدار میں میں مسنگ پرسنز کے بارے میں لکھنے پر حکومتی اداروں کی جانب سے صحافیوں پر مختلف طریقوں سے پریشر ڈالا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف رپورٹ نہ کرنے کی صورت میں متاثرہ لوگوں کی طرف سے منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
 
حسنی بتاتے ہیں بلوچستان میں سب سے زیادہ خضدار کے صحافی غیر محفوظ ہیں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے اس لیے اکثر صحافی یا تو صحافت چھوڑ چکے ہیں بلکہ یا تو پر اپنے جان کی حفاظت کے لیے کسی مخصوص گروہ کی تشہیر میں لگ جاتے ہیں تاکہ ان کو کسی بھی طریقے سے جان کی امان فراہم ہو ۔
 
جبار حسنی مزید بتاتے ہیں اگر حکومت ان کی جان مال کی حفاظت کرے تو صحافیوں کو صحافتی خدمات سر انجام دیتے ہوئے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے اکثر صحافی عدم تحفظ کے باعث صحافت جیسے شعبہ سے کنارہ کشی اختیار کر گئے اور کچھ صحافی اپنے کام سر انجام دیتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے جبکہ ایک صحافی کی بچوں کو بھی قتل کردیا گیا ۔
وہ بتاتے ہیں خصدار میں صحافت اس لیے بھی مشکل ہے کہ یہاں پر مختلف قبائل رہتے ہیں جہاں ان کی آپس کی رنجشوں کی باعث صحافی کو مجبوراً صحافت چھوڑنا پڑتا ہے یا وہ یک طرفہ رپورٹنگ پر مجبور ہو جاتا ہے۔
جبار حسنی مزید بتاتے ہیں خضدار میں صحافیوں کی کوئی تنظیم متحرک نہیں جس کہ وجہ سے بھی صحافیوں کی جان مال کی حفاظت مشکل ہے ۔
بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد خلیل دمڑ گزشتہ 4 سالوں سے صحافتی اخلاقیات پڑھا رہے ہیں بتاتے ہیں  کہ بلوچستان میں اکثر صحافی صحافتی اخلاقیات سے ناآشنا ہونے کی باعث مسلع تنظیموں یا دہشت گرد گروہوں کا نشانہ بنتے ہیں ۔کیونکہ اکثر صحافی صحافتی اخلاقیات سے ناواقفیت کی وجہ سے یک طرفہ رپورٹنگ کرتے ہیں جس کی وجہ سے  مختلف گروہوں کے نشانہ پر رہتے ہیں۔
   صحافتی اخلاقیات اور قوانین پر عمل کر کے اپنی اور دوسروں  کی جان کی حفاظت کر سکتے ہیں اور یکطرفہ رپورٹنگ گریز کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ صحافتی تنظیموں اور پریس کلب کی زمداری بنتی ہے کہ وہ صحافیوں کے لیے میڈیا سیفٹی کے حوالے سے باقاعدگی سے تکنیکی ورکشاپ اور ٹریننگ کروائیں تاکہ ان کو جنگ زدہ علاقوں میں رپورٹنگ کرنے میں آسانی ہو اور ان کی جان کی حفاظت بھی۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے صدر عرفان سعید بتاتے ہیں کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں نہ صرف صحافت مشکل ہے بلکہ صحافیوں کے زندگیوں کو خطرہ بھی سب سے زیادہ ہے ۔
 
 مزید بتاتے ہیں کہ صوبہ میں صحافیوں کا مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں 41 صحافی اپنے فرائض کی سر انجام دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے ہیں لیکن ان میں سے صرف  ایک  صحافی کے قاتل کو گرفتار کیا جاسکا ۔
 وہ بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں صحافیوں کو نہ صرف کالعدم تنظیموں،مذہبی گروہوں کے پریشر کی سامنا ہے بلکہ حکومتی اداروں کے طرف سے بھی اکثر خبروں کو روکا جاتا ہے جس سے صحافت کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتا ہے۔
عرفان سعید نے صحافیوں کے لیے میڈیا سیفٹی کو اہم قرار دیتے ہوئے بتایا کہ اکثر صحافیوں کو پی پی ایف سمیت مختلف اداروں کے طرف سے میڈیا سیفٹی کے لیے خصوصی ٹریننگ دیا جا رہا ہے جس سے صحافتی خدمات سر انجام دیتے ہوئے صحافیوں کے لیے اپنے جان کی حفاظت کرنے میں مدد ملتی ہے۔
وزیر داخلہ بلوچستان ضیا لانگوہ نے دعویٰ کیا کہ حکومت بلوچستان شہریوں کی حفاظت کے لیے دن رات کوشاں ہے اور صحافیوں کی مشکلات کا ازالہ کرنے کو ہر وقت تیار رہتی ہے
انہوں نے مزید بتایا کہ اگر صحافی بھائی اپنی مشکلات حکومت بلوچستان کے سامنے رکھیں تو حکومت ہر ممکن اقدامات کرے گی
انہوں نے کہا بلوچستان کے حالات پہلے جیسے نہیں رہے اب صحافیوں کے لیے ساز گار ہیں جس کا کریڈٹ موجودہ حکومت اور صوبہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جاتا ہے