|

وقتِ اشاعت :   August 10 – 2023

وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے اپنے ایک بیان میں کہا کے نئی مردم شماری پر بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے جاری بحث بے معنی ہے

نئی مردم شماری پر تنقید کرنے والوں کو 1998 اور 2017 کی مردم شماریوں کا بھی جائز ہ لینا چائیے ۔مردم شماری نہ ہونے سے بلوچستان کو پہنچنے والے نقصان کے زمہ داروں کا بھی تعین کرنا چاہیے۔ہم نے حقائق کو دیکھتے ہوۓ نئی مردم شماری کو تسلیم کیا ۔نئی مردم شماری میں بلوچستان میں آبادی بڑھنے کی شرح دیگر صوبوں سے زیادہ ہے ۔بلوچستان کا مسلئہ قومی اسمبلی میں دو چار نشستوں کے بڑھنے سے حل نہیں ہو گا ۔اسکے لیۓ سینٹ کو با اختیار بنانا ہو گا جس میں تمام صوبوں کی متناسب نمائیندگی ہے ۔ہمارا شروع دن سے موقف ہے کہ این ایف سی میں وسائل کی تقسیم کے فارمولے میں دیگر عوامل کو بھی شامل کیا جاۓ ۔آبادی کے ساتھ ساتھ پسماندگی رقبہ اور امن امان کی صورتحال کے عوامل کو بھی شامل کیا جاۓ ۔

این ایف سی کوصرف آبادی کی بنیاد پر نہیں صوبوں کی پسماندگی و امن و امان

کے مسئلے کو مد نظر رکھ کر ترتیب دینا چاہیئے قدوس بزنجو

۔ان عوامل کے شامل ہونے سے بلوچستان کو این ایف سی میں فائدہ پینچ سکتا ہے ۔صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت ہے کہ آئیں مل بیٹھ کر صوبے کے مفادات کا تحفظ کریں ۔مشترکہ جدوجہد ہی سے وفاق سے اپنے حقوق تسلیم کروا سکتے ہیں ۔اگر ہم اس حوالے سے ایک پیج پر نہیں آتے تو وفاق کبھی بھی ہمیں ہمارے حقوق نہیں دے گا۔صوبے کی تمام سیاسی قیادت دور اندیشی اور سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرے ۔وزیراعلئ

۔ایک دوسرے پر تنقید کی بجاۓ حقیت پسند انہ اور فکری انداز میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جاۓ ۔یہ درست نہیں کہ صرف بلوچستان کی آبادی کو کم کیا گیا ہے ۔بلوچستان کی آبادی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جو کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔

سینٹ کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے جہاں پر تمام صوبوں کی برابر ی کی بنیاد پر نمائندگی ہے ۔ہمارے جو اضلاع پسماندہ ہیں انکے لیۓ خصوصی گرانٹ ہونی چاہیں ۔دیگر ترق یافتہ ممالک میں بھی یہ طریقہ کار رائج ہے ۔اگر ہم صرف آبادی کو بنیاد بنا کر ہی ترقی کے خواب دیکھ رہے ہیں تو یہ صرف خواب ہی رہینگے۔اگر آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو یہ غلط ہوگا ۔

سیاسی قیادت نان ایشوز پر سیاست کرنیکی بجائے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرے قدوس بزنجو

۔کل پھر یہ معاملہ صوبے میں بلوچ پشتون آبادی کے ساتھ ساتھ ضلعوں کی آبادی کے حوالے سے بھی اٹھ جاۓ گا ۔ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حالیہ مردم شماری میں بھی خامیاں ضرور ہو نگی اس حقیقت کو بھی ماننا چاہے کہ کچھ اضلاع میں آبادی کو غیر فطری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ۔

۔ ہمارے کچھ ایسے اضلاع بھی ہیں جہاں سیلاب کے باعث بہت سے لوگ نقل مکانی کر گئے۔نقل مکانی والوں کا اندراج مردم شماری میں نہیں ہو سکا ۔

۔ہم نے اسکے باوجود اس مردم شماری کو صوبے کے وسیع تر مفاد میں تسلیم کیا۔ ہماری سیاسی قیادت کو دس سال میں مردم شماری کا نہ ہونا اور حالیہ مردم شماری کا چھ سال بعد انعقاد یاد نہیں ۔مردم شماری نہ ہونے سے صوبے کو بہت نقصان ہوا ۔

۔ایک اندازے کے مطابق ہمیں این ایف سی میں سالانہ دس ارب روپے کم ملے ۔صوبے کے اس نقصان پر صوبے کی سیاسی قیادت نے کیوں چپ ساد ھ رکھی تھی ۔اس نقصان کے زمہ داروں کا بھی تعین ضرور ہونا چاہیے ۔ہم نے ڈیڑھ سال کی قلیل مدت میں جو اقدامات اٹھاۓ وہ کھلی کتاب کی مانند ہیں۔

۔بلدیاتی انتخابات کا صاف و شفاف انعقاد ریکو ڈک کا معاہدہ بلوچستان کے حقوق پر اصولی موقف اور دیگر ان گنت کامیابیاں شامل ہیں ۔ سیاسی قیادت نان ایشوز کے بجاۓ حقیت پسند انہ سیاسی طرز عمل اختیار کرے ۔ہم ملکر ہی بلوچستان کا حق ادا کر سکتے ہیں ۔