|

وقتِ اشاعت :   August 18 – 2023

میرِجمہوریت میرحاصل بزنجو کو دنیا سے رخصت ہوئے تین سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اب بھی دل نہیں مانتا کہ میرصاحب ہم میں نہیں ہیں ہم ہر وقت ان کی کمی کو محسوس کرتے رہتے ہیں۔ میرصاحب ایک بہترین دوست،شاندار انسان اورکمٹڈ سیاست دان تھے پارٹی کارکنوں کے ساتھ وہ ہمہ وقت رابطے میں رہتے تھے انہوں نے انتھک محنت، خلوص اور اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے سیاست میں اپنا ایک الگ مقام بنایاتھا آج کے سیاسی حالات میں ان جیسے معاملہ فہم انسان کی اشدضرورت تھی لیکن قدرت کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے آج وہ ہم میں نہیں ہیں ان کی موت کے بعد سردار اخترمینگل نے اسلام آباد میں اس بات کی بڑی کوشش کی کہ انہیں میر بزنجو جیسا مقام حاصل ہولیکن یہ بات بھی اٹل ہے کہ خواہشوں سے مقام حاصل نہیں کئے جاسکتے مقام بنانے کے لیے انسان کو جدوجہد کے ساتھ صاحب کردار بھی ہونا پڑتا ہے میرحاصل بزنجو کی سوچ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے نہیں تھی ان کی سیاست کا محور محکوم اور مظلوم عوام کے حالات زندگی کا بدلنا تھا وہ ہمہ وقت جمہوری جدوجہد پر یقین رکھنے والے انسان تھے۔
انہوں نے عمران خان کی سول آمریت کے خلاف حزب اختلاف کی تمام قابل ذکر جماعتوں کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کے پلیٹ فارم پراکٹھا کیا مسلم لیگ (ن)،جمعیت علمائے اسلام اورپیپلزپارٹی کو ایک میز پربٹھا کرایک بڑے اتحاد کی بنیاد ڈالنا کوئی معمولی بات نہ تھی لیکن یہ غیرمعمولی کام میرحاصل بزنجو نے کردکھایا مگر پی ڈی ایم نے اقتدار میں آنے کے بعد اس اتحاد کی اہمیت کوخود ہی روند ڈالا حکومت ملنے کے بعد پی ڈی ایم کو ایک اتحاد کے طورپر نہ چلایاجاسکا۔
میرصاحب اگر زندہ ہوتے تو پی ڈی ایم کو کبھی غیرفعال نہ ہونے دیتے وہ بلوچستان کے مسائل اوران کے حل کے لیے جونیشنل پارٹی کا موقف ہے اسلام آباد والوں کواچھی طرح سمجھا سکتے تھے حزب اختلاف کی جملہ پارٹیوں کی لیڈرشپ میر بزنجو کا احترام کرتی تھی اوران کی رائے کواہمیت بھی دی جاتی تھی۔
آج بلوچستان میں پھر سے لوگوں کو لاپتہ کیاجارہا ہے حالات خراب سے خراب تر ہورہے ہیں اس صورت حال کے ذمہ داروں کو وہ باور کراسکتے تھے کہ بلوچستان کے سیاسی مسائل کو جس طرح طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کے نتائج خطرناک ہونگے۔
یہ کریڈٹ نیشنل پارٹی ہی کوجاتاہے کہ اس کے کارکن اوررہنما مفادات کی نہیں اصولوں کی سیاست کرتے ہیں آج جبکہ ہر طرف لوگ عہدوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
لیکن نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک بلوچ نے نگراں وزیراعظم کا عہدہ ٹھکراکر یہ ثابت کیا ہے کہ نیشنل پارٹی جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہے میرحاصل بزنجو نے بھی ساری زندگی عوامی طاقت کو منظم اور متحرک کرنے کی جدوجہد کی ہے آج جبکہ میرحاصل خان بزنجو ہم میں موجود نہں ہیں تب ہمارے اوپر ذمہ داریاں پہلے زیادہ ہیں ہمیں میر بزنجو کے سیاسی فلسفے کو عوام میں پھیلانا ہے اس وقت،ہم ہی ملک میں وہ سیاسی جماعت ہیں جو مظلوم قوموں،کچلے ہوئے طبقات محنت کشوں اور کسانوں کے حقوق کے حصول کے لیے مصروف جدوجہد ہیں۔ (مضمون نگار نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری فنانس ہیں)