|

وقتِ اشاعت :   August 19 – 2023

آواران نامہ نگار آواران کے تحصیل مشکے میں تعلیمی نظام درہم برہم ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مشکے سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ اس بات میں کوہی شک نہیں کہ ہر تندرست و توانا معاشرہ کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار علم و دانشگاہ اور تعلیم پر منحصر ہے۔ اس لیے معاشرہ کے ہر طبقہ فکر کے لوگ اپنے تعلیمی و تربیتی نظام کے لیے ہمیشہ کوششیں کرتے ہیں۔ ماضی سے لیکر آج تک لوگوں کی یقین رہی ہے کہ تعلیم کے فروغ کے لئے فلسفیوں اور علماء نے بڑی محنت کی ہے اور ان کی مرہون منت ایک ہی معیار رہا ہے یعنی اہلیت و قابلیت۔جس کی بدولت آج قوموں نے بہت سی ایجادات کی اور دنیا میں بہت نام روشن کر چکے ہیں۔

اور تعلیمی ادارے گورنمنٹ کی جانب بنوائے جاتے ہیں۔ تعلیم ہر فرد کا بنیادی حق ہے لیکن آج اس جدید و مابعد جدید دنیا میں آواران کے تحصیل مشکے جیسے پسماندہ علاقے کو تعلیم سے محروم کردیا گیا ہے ڈسٹر آواران کے تحصیل مشکے میں گورنمنٹ اسکولز اور انٹر کالجز نہ ہونے کے برابر ہے اساتذہ کی کمی کے باعث تعلیمی اداروں میں بچے اور بچیوں کے جگہوں میں بیڑ بکریاں ہیں۔یہ محرومیت کی وبا اس وقت پھیلی جب چوبیس ستمبر دو ہزار تیرہ میں زلزلہ آیا تھا تحصیل مشکے کے کہیں اسکولوں کی عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہوئے تھے،ان کے ساتھ کرسیاں، میز، ڈسکس اور باقی چیزیں بھی نہ بچ سکیں۔بعد میں علاقے کی بیشتر جگہوں میں تعلیمی نظام کو برقرار رکھنے میں بہت سے مشکلات پیش آئے تو غریب لوگوں نے اپنے بچوں اور بچیوں کو پڑھوانا بند کردی

انہوں نے کہا کہ تحصیل مشکے میں زلزلے کے بعد دو چار ایسے تعلیمی ادارے تھے جن کی عمارتوں کی تعمیرات بھی نہیں ہوئے لیکن کچھ اساتذہ ہی تھے جنہوں نے مشکے گجر شہر اور نلی میں مڈل اسکول جو بعد ہائی ہوئی کے اساتذہ نے پڑھانا شروع کیا تاکہ وہاں کے باسیوں کے بچے اور بچیوں علم و تعلیم سے محروم نہ رہیں لیکن دور دراز جگہوں کے طلبا و طالبات شہر میں نہیں آ سکے۔ اکثریتی اساتذہ حب و کراچی اور کوئٹہ میں بسنے لگے تھے جو آج بڑے کاروباری بن گئے ہیں انہوں نے دو ہزار سے زیادہ بچے اور بچیوں کو تعلیم سے محروم کردی۔دوسری جانب ڈسٹرکٹ انتظامیہ کی تعلیم کی کار کردگی بھی مایوس کن ہیں اس سے پہلے مشکے سول سوسائٹی کی جانب سے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کیلئے ٹوئٹر کمپئین چلے تھے اور باشعور عوام نے ڈی ای او، ڈسٹرکٹ افسران کے علاؤہ دیگر انتظامیہ والوں کو آغا کر دیئے تھے کہ نوکجو، منگی، تنک، ہوگار، گورجک، جیبری، میہی، کالار، پروار، گنجلی، ملش بند، بنڈکی، دائرہ،میسکی، شردوئی، رونجان، گورکائی کے علاؤہ دیگر جگہوں میں کھنڈرات میں تبدیل ہونے والے اسکولز کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے جو تاحال بند ہیں

لیکن ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن تاحال کوئی اقدامات نہیں اٹھائی جاری ہے انہوں نے چیف سیکرٹری بلوچستان سے اپیل کرتے ہیں کہا کہ ڈسٹرکٹ آواران کے تحصیل مشکے میں دو ہزار سے زیادہ طلبا و طالبات تعلیم سے محروم اور اسکول و کالجوں میں اساتذہ کی کمی ہے۔ اگر تعلیمی داروں کے اساتذہ دوبارا اپنے علاقے کے اسکولوں میں موجود نہ رہے اور عمارتوں کی تعمیر شروع نہیں ہوا تو آئندہ مشکے سول سوسائٹی ہر جمہوری و آئینی قدم پر چلنے کیلئے تیار ہے۔