مشرق وسطیٰ کی دو بڑی طاقتوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بعد ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے پہلے دورے کے دوران جمعے کو سعودی عرب کے حقیقی حکمران تصور کیے جانے والے ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سعودی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ جمعرات کو سعودی عرب آنے والے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے ایک روزہ دورے میں ایک دن کی توسیع کے بعد جدہ میں ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔
وزارت خارجہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس(سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں کہا کہ دونوں رہنماؤں نے اپنے ممالک کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیا، مستقبل میں تعاون کے مواقع اور ان کو فروغ دینے کے طریقوں کے علاوہ علاقائی اور بین الاقوامی منظرنامے میں ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔
ایران کی سرکاری خبر ایجنسی ارنا نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب کسی اعلیٰ ایرانی عہدیدار نے 37 سالہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی ہے۔
شیعہ مسلم اکثریتی ایران اور سنی حکومت کے حامل سعودی عرب نے 2016 میں تعلقات منقطع کر لیے تھے لیکن رواں سال مارچ میں چین کی ثالثی کی کوششیں رنگ لائیں اور دونوں ممالک نے ایک معاہدہ کرتے ہوئے سفارتی تعلقات کی بحالی پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
اس اعلان سے امید کی نئی کرن پیدا ہوئی ہے کیونکہ خطے کی ان دو بڑی طاقتوں میں مشرق وسطیٰ بالخصوص یمن میں جاری تنازعات میں مخالف فریقین کی حمایت کی ہے۔
جمعرات کو امیر عبداللہیان نے اپنے سعودی ہم منصب فیصل بن فرحان کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ تعلقات صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
ان کا یہ دورہ دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ملاقات کا پیش خیمہ ثابت ہو گا تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی شاہ سلمان کی دعوت پر کب سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔
ایران کے اعلیٰ سفارت کار نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور سیکیورٹی تعاون کو سراہا لیکن کسی نئے معاہدے کا اعلان نہیں کیا، ان کے ہمراہ سعودی عرب میں ایران کے نئے سفیر علی رضا عنایتی بھی موجود تھے۔
امیر عبداللہیان نے علاقائی مکالمے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ یہ ملاقاتیں اور تعاون عالم اسلام کے اتحاد میں مددگار ثابت ہو گا۔
مارچ میں ہونے والے معاہدے کے بعد سعودی عرب نے یمن میں امن کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں اور یمنی دارالحکومت صنعا میں حوثی رہنماؤں کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے کے ساتھ ساتھ ایران کے اہم اتحادی شام کی عرب لیگ میں واپسی کی بھی حمایت کی تھی۔