|

وقتِ اشاعت :   August 19 – 2023

کوئٹہ:نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر سابق سینیٹر میر کبیر احمد محمد شہی نے کہا کہ پاکستان اپنی 76 ویں آزادی کا دن منا چکا ہے اور گزشتہ 75 سالہ ملک کی تاریخ میں بلوچستان میں نالائق کرپٹ نا اہل اور مسائل کے حل کے حوالے سے عاری حکومت کبھی نہیں دیکھی میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ 5 سالوں کے دوران بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں کہ حکومت کس کو کہتے ہیں جہاں پر گڈ گورننس انتظامی امور اور لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات روزگار تعلیم صحت پینے کا صاف پانی اور دیگر ضروریات زندگی کو آسان بنانے کے لئے کوئی میکانزم اور طریقہ کار نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ میر عبدالقدوس بزنجو کو جب وزیراعلیٰ بنایا گیا

اس کے بعد تمام نمائندوں نے صرف پی ایس ڈی پی کو اپنی ذات پر خرچ کرکے ارب پتی بننے کے لئے اقدامات اٹھائے اور وزراء نے 25 فیصد منصوبوں کے ذریعے اپنے ذاتی مفادات کو حاصل کیا جس کی وجہ سے آج بلوچستان کے باسی روزگار کی فراہمی اور سہولیات کے حوالے سے لوگ محروم رہے لوگوں کو روزگار دینے کی بجائے نوکریاں فروخت کی گئیں اور سر عام ان کی بولیاں لگتی رہیں اور بلوچستان میں سابقہ دور حکومت میں کرپشن لوٹ مار کمیشن اقرباء پروری عروج پر تھی یہی وجہ ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جاری کردہ رپورٹ میں اشیاء کی سب سے کرپٹ نالائق اور کمیشن خور بلوچستان حکومت کو قرار دیا گیا حالانکہ بلوچستان جو کہ پسماندگی اور عوام کے حوالے سے ان میں پائے جانے والے احساس محرومی کے بارے میں سب کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے لیکن اس طرح کی کرپشن لوٹ ماری اقرباء پروری کمیشن خوری کی وجہ سے آج بھی بلوچستان پسماندگی کی منہ بولتی تصویر پیش کر رہاہے

اور بلوچستان کی پسماندگی اور لوگوں میں پائے جانے والے احساس محرومی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے پارلیمان میں آنے والے نمائندے جن کا مقصد اسمبلی میں آ کر قانون سازی کرکے بلوچستان کی بہتری اور لوگوں کے لئے قانون سازی کرکے انہیں سہولیات فراہم کرنا ہے اس کی بجائے منتخب ہوکر آنے والے عوامی نمائندے اسمبلی میں صرف پی ایس ڈی پی کو کس طرح لوٹنا اور اس کی آڑ میں وسائل کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال میں لانا ہے یہی ان کے لئے قانون سازی ہے وہ قانون سازی کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کو سمجھنے سے عاری ہیں انہوں نے ہمیشہ عوام اور صوبے کی تعمیر و ترقی کے لئے اجتماعی نوعیت کے منصوبوں اور وسائل کی فراہمی پر توجہ دینے کی بجائے ذاتی و گروہی مفادات کو ترجیحی دی ہے اور قانون سازی سے غافل رہ کر انہوں نے صرف ملازمتوں کے حوالے ٹرانسفر پوسٹنگ اور بھرتیوں کے لئے لوگوں سے پیسہ بٹورنا اور لوگوں کو ملازمتیں فروخت کرنے پر توجہ دی ہے

بلوچستان میں سابق حکومت کے دور میں اس طرح ملازمتیں فروخت ہوئی جس طرح کوئی بھی شخص بازار سے سودا سلف خریدنے کے لئے جاتا ہے لوگوں سے پیسے لے کر ان میں نوکریوں کے آرڈر تقسیم کئے گئے گڈ گورننس کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات میسر نہیں کوئٹہ جو کہ بلوچستان کا دارالحکومت ہے یہ شہر جو صوبے کا آئینہ بن کر اس کا چہرہ باہر سے آنے والوں کو نظر آنا چاہیے لیکن کوئٹہ شہر کی سڑکوں گلی محلوں اور علاقوں کی حالت زار دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہاں پر زلزلہ آیا ہو یا کوئی جنگ زدہ علاقہ ہو شہر کی تمام سڑکیں جس میں سریاب روڈ کرانی روڈ ٗ بائی پاس اور دیگر لنکس سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں

سابق حکمرانوں اور ارباب اختیار کو عوام کے دکھ درد مسائل اور مشکلات سے کوئی سرو کار نہیں اور نہ ہی انہیں عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کوئی سرو کار ہے کیونکہ تمام نمائندوں اور اراکین اسمبلی کی یہی کوشش رہی ہے کہ کوئٹہ اور گرد و نواح میں جو بھی سرکار کی خالی زمین ہے اس کو اپنے نام پر الاٹ کرکے صوبے کے وسائل کو مال غنیمت سمجھ کر ہڑپ کیا جائے کیونکہ سابق حکومت عوام کو درپیش مسائل سے نجات دلانے اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرکے بدلاؤ لانے میں ہر حوالے سے ناکام ترین کرپٹ نا اہل اور نالائق حکومت ثابت ہوئی ہے۔