|

وقتِ اشاعت :   September 2 – 2023

کوئٹہ: وائس چانسلر یونیورسٹی آف بلوچستان پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمن نے کہا ہے کہ استاد کی تنخواہوں کی بندش سے صرف استاد متاثر نہیں ہوگا بلکہ پاکستان کی 24 کروڑ عوام متاثر ہوتی ہے،

جامعہ بلوچستان کی مالی بحران میں یونیورسٹی انتظامیہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے

اس جدوجہد میں ہماری نہ صرف تذلیل کی جاتی بلکہ ہمارے تکالیف پر خوشی محسوس کیا جاتا تھا

لیکن ہمارے قدم نہیں ڈگمگائے،جامعہ بلوچستان کو درپیش مسائل و مشکلات ہمیں حل کرنی ہے اس کیلئے باہر سے کوئی نہیں آئے گا اگر ہم اپنے آپ کو سنھبالیں تو ہم ترقی کر سکیں گے،

اپنے کام میں غفلت سے ہم ہی ناکامی کا سامنا کریں گے۔

نوجوان نسل کو سکلز تعلیم دینی چاہیے تاکہ وہ اپنے آپ کے ساتھ صوبے کو اپنے پائوں پر کھڑا کرے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن جامعہ بلوچستان کی تقریب حلف برداری سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر پرو وائس چانسلر ڈاکٹر عین الدین، رجسٹرار طارق جوگیزئی،کنٹرولر گل محمد کاکڑ، چیف الیکشن کمشنر پروفیسر ڈاکٹر غلام دستگیر، اے ایس اے کے صدر پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ بڑیچ، مکران یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک ترین ودیگر بھی موجود تھے۔

اسٹیج سیکرٹری کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر فرید اچکزئی نے سر انجام دئیے۔

اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر پروفیسر ڈاکٹر غلام دستگیر نے اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے انتخابات برائے سال 2023 کے نتائج شرکا کے سامنے پیش کئے۔

انتخابات میں تین پینلز نے حصہ لیا کل 500 کے قریب اساتذہ ہے جس میں 373 ووٹ کاسٹ ہوئے،

پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ بڑیچ صدر،ارسلان احمد شاہ نائب صدر ،فرید خان اچکزئی جنرل سیکرٹری ،فائزہ میر جوائنٹ سیکرٹری ،ڈاکٹر سعید احمد ایسوٹ فنانس سیکرٹری ،ڈاکٹر شبیر احمد شاہوانی،پریس سیکرٹری،ایگزیکٹو ممبران میں مس زارا ملغانی، مسعود مندوخیل، ڈاکٹر کامران تاج، ہاشم جان کھوسہ، ڈاکٹر رحیم بخش مہر منتخب ہوئے ہیں۔

وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمن نے نومنتخب کابینہ سے حلف لیا۔

پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ بڑیچ نے کہا کہ خوشی کا موقع ہے کہ جمہوری عمل کے ذریعے مختلف پینلز نے انتخابات میں حصہ لیا اور جامعہ بلوچستان کے اساتذہ کو ایک منتخب کابینہ دیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان سمیت ملک بھر کی جامعات بلخصوص جامعہ بلوچستان مالی بحران کے شکار ہیں اور اپنے حق کیلئے ہم نے ہر جمہوری جدوجہد کا راستہ اختیار کیا دنیا میں وہ قومیں اور ریاستیں ترقی کررہی ہے

جو تعلیم پر خرچ کرتے ہیں پاکستان مالی بحران کا شکار ہیں کیونکہ ہم نے تعلیم کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے ہم بھی پیچھے رہ گئے ہیں ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ہم ہمسایہ ممالک سے بھی پیچھے ہیں ایران نے اپنی جی ڈی پی کے 4 فیصد تعلیم کیلئے مختص کیا ہے، سیاسی استحکام بھی اہم وجہ ہے

بنگلہ دیش ہمارے بعد آزاد ہوا اور آج ہم سے آگے ہیں۔

گزشتہ پانچ سال تعلیم کا جو بجٹ ہے وہ آج بھی وہی ہے لیکن اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا خیبرپختونخوا، سندھ کی جامعات مالی بحران سے دو چار ہیں بلوچستان کی سابقہ حکومت میں ایک ایکٹ پاس کیا گیا جس میں قانون سازی کے اداروں میں غیر منتخب لوگوں کو رکھا گیا ہے،

مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ غریب افراد زندگی کا گزارا نہیں کر پا رہے تو تنخواہ کی بندش اور اساتذہ کا کوئی دوسرا روزگار نہیں وہ اس مہنگائی میں کیسے گزارا کریں گے؟

انہوں نے کہا کہ اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے انتخابات میں اساتذہ کا بڑے پیمانے پر ووٹ کا استعمال اے ایس اے پراعتماد ہے،

مہینے کے تین تاریخ ہونے کو ہے اساتذہ کو تنخواہیں اب تک ادا نہیں کی گئی ہے جو سوالیہ نشان ہے، اساتذہ نے جس منشور کے مطابق ووٹ دیا ہے اس پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔شرکا سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمن نے اے ایس اے کی نومنتخب کابینہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے

کہ میری بلوچستان یونیورسٹی میں یہ آخری سال افہام و تفہیم اور پرامن گزرے گا، انہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی کے مالی مسائل ایک دن یا آج کی پیدا کردہ نہیں ہے،

تعلیم کیلئے جو رقم مختص کی گئی ہے وہ آج بھی وہی ہے اگر پیسوں کی ڈی ویلیویشن دیکھا جائے تو ہم 2005 کے دور میں ہے،

استاد کی تنخواہوں کی بندش سے صرف استاد متاثر نہیں ہوگا بلکہ پاکستان کی 24 کروڑ عوام متاثر ہوتی ہے، جامعہ بلوچستان کی مالی بحران میں یونیورسٹی انتظامیہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے

اس جدوجہد میں ہماری نہ صرف تذلیل کی جاتی بلکہ ہمارے تکالیف پر خوشی محسوس کیا جاتا تھا لیکن ہمارے قدم نہیں ڈگمگائے اللہ تعالی نے ہمارے حال پر رحم کیا اور ہمیں نکال لایا۔

اس بحران کے خاتمے میں گورنر بلوچستان ملک عبدالولی کاکڑ، اس وقت کے وزیر خزانہ انجینئر زمرک خان اچکزئی کا قابل ستائش کردار ہے،

امید ہے کہ موجودہ نگران حکومتیں چاہیے وہ وفاقی ہو یا صوبائی حکومت صوبے کے سرکاری جامعات بلخصوص جامعہ بلوچستان کے مالی بحران کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے،

انہوں نے کہا کہ جامعہ بلوچستان کو درپیش مسائل و مشکلات ہمیں حل کرنی ہے اس کیلئے باہر سے کوئی نہیں آئے گا

اگر ہم اپنے آپ کو سنھبالیں تو ہم ترقی کر سکیں گے، اپنے کام میں غفلت سے ہم ہی ناکامی کا سامنا کریں گے۔ نوجوان نسل کو سکلز تعلیم دینی چاہیے تاکہ وہ اپنے آپ کے ساتھ صوبے کو اپنے پائوں پر کھڑا کرے۔