پانچ ستمبر عورتوں کے لئے ایک سیاہ دن ثابت ہوتا جارہا ہے۔ اس روز عورتوں کو بے دردی سے قتل کرنے کے دو بڑے واقعات رونما ہوئے۔ پہلا واقعہ رواں سال پانچ ستمبر کو خیببر پختونخوا کے علاقے سوات جبکہ دوسرا پانچ ستمبر 2020 کو بلوچستان کے ضلع کیچ میں رونما ہواتھا۔ یہ واقعات غیرت کے نام پر سرانجام دیے گئے۔
دونوں ہی واقعات میں غیرت کو ہتھیار کے طورپر استعمال کیا گیا جس کی اجازت نہ ہی دین اسلام اور نہ ہی کسی ملک کا قانون دیتا ہے۔ تاہم مردانہ سماج کے سامنے ان قوانین کی پاسداری نہیں کی جاتی ہے۔ جس کا جہاں دل چاہے وہ غیرت کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرکے انسانی جانوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔.
غیرت کی بات کی جائے تو عورت کے مقابلے میں 90 فیصد مرد بے غیرت ہوتے ہیں۔ اسکا اندازہ مردوں کے رویوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ رویے شہروں اور دیہاتوں میں مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔پاکستان میں خواتین کو بازاروں، دفاتر، دوران سفر پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر عوامی مقامات پر مختلف طریقوں سے ہراساں کیے جانے کے واقعات عام ہیں۔
خواتین کو چھونے، آوازیں کَسنے، راستہ روکنے سمیت متعدد طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والی خواتین کے ساتھ اوباش نوجوانوں کی نازیبا حرکات تو روز کا معمول ہیں۔
اس گھٹیا فعل پر دیگر مرد حضرات انہیں روکنے کے بجائے ہنستے ہوئے نظر آتے ہیں۔
گاڑی روک کر راہ چلتی خواتین کو بیٹھنے کے اشارے کئے جاتے ہیں۔
سڑک پر موجود لوگ اس سب پر بھی خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔
اور ان کی مردانہ غیرت سوئی رہتی ہے۔
بے غیرتی کا ہر عنصر مردوں میں بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے لیکن مردانہ سماج ان کو سپورٹ کرتا ہے۔
اس کے برعکس خواتین کا غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے جو مرضی دل میں آئے الزام لگا کر قتل کردیا جاتا ہے۔
سوات کے علاقے مینگورہ میں فائرنگ کرکے خاتون کو قتل کر دیا گیا۔ خاتون کا قصور یہ تھا کہ اس نے خلع کا کیس دائر کر رکھا تھا۔
پولیس کے مطابق سوات کے علاقے بنڑ سے تعلق رکھنے والے اختر علی نامی شخص نے اپنی بیوی کو فائرنگ کرکے قتل کیا۔
خاتون کی ہلاکت کے بعد پاس ہی موجود اس کا معصوم بچہ لاش کے پاس بیٹھ کر روتا رہا۔
اس قتل پر چیئرمین پاکستان علما کونسل علامہ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ مرد اگر عورت کیساتھ ظلم کرتا ہے تو وہ مجرم ہے۔
عورت کو مرد کے ظلم خاموش نہیں رہنا چاہئے۔ طاہر اشرفی نے مزید کہا کہ عورت مجبور نہیں ہے وہ خلع لے سکتی ہے، اسے اس کا مکمل حق حاصل ہے۔
اسی نوعیت کا ایک کیس بلوچستان کے ضلع کیچ میں بھی پیش آیا تھا۔5 ستمبر 2020 کو بلوچستان کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والی معروف خاتون سماجی کارکن، مصورہ اور صحافی شاہینہ بلوچ کو ان کے شوہر نے قتل کردیا۔
شاہینہ بلوچ کا قاتل آج تک قانون کی گرفت سے دور ہے۔ انکے قتل کا مقدمہ تربت پولیس اسٹیشن میں درج ہے۔ کیچ پولیس کے مطابق نامزد ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں لیکن تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
شاہینہ ایک تعلیم یافتہ لڑکی تھی جس کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت شہر سے تھا۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم تربت میں حاصل کرنے کے بعد فائن آرٹس میں ڈگری حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی آف بلوچستان میں داخلہ لیا۔
2018 میں فائن آرٹس میں نہ صرف بی ایس کی ڈگری حاصل کی بلکہ اپنی ذہانت کے باعث گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ شاہینہ نے 2019 میں بلوچی زبان میں بھی فرسٹ پوزیشن کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
شاہینہ بلوچ کا کوئی بھائی نہیں تھا، وہ پانچ بہنیں تھیں۔
یونیورسٹی آف بلوچستان میں جب فائن آرٹس کے فائنل ایئر کے طلبا و طالبات کی پینٹنگز کی نمائش کی گئی تو شاہینہ کی پینٹنگز نہ صرف شامل بلکہ ہر لحاظ سے نمایاں رہیں۔
شاہینہ کی بنائی گئی والدہ اور چار بہنوں کی پینٹنگز بھی نمائش میں توجہ کا مرکز رہیں۔ وہ صحافت کے پیشے سے بھی وابستہ تھی اور بلوچی میگزین دزگہار(سہیلی) کی مدیرہ بھی تھیں۔ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران وہ پی ٹی وی بولان کے بلوچی زبان میں مارننگ شو کی میزبانی بھی کرتی رہیں۔
وہ مکران جیسے دوردراز علاقے سے پہلی لڑکی تھیں جنہوں نے ٹی وی میں کام کیا۔
شاہینہ بلوچ کے قتل کے خلاف سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا تاہم قاتل قانون کی گرفت میں نہ آسکے۔ہر سال بلوچ معاشرے میں 5 ستمبر کو شاہینہ بلوچ کی یاد میں دن منایا جاتا ہے۔
اس سال بھی بلوچستان میں اسکی یاد میں دن منایاجارہا تھا کہ سوات میں اسی طرز کا دلخراش واقعہ پیش آیا۔ ایک بچہ اپنی ماں کی لاش سے لپٹا دھاڑیں مار رہا تھا۔ کسی اور نے نہیں اس کے اپنے باپ نے ہی ماں کو اس بچے سے چھین کر اسے یتیم کردیا۔
پاکستان میں عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کے ساتھ ساتھ انہیں نجی جیلوں میں بھی قید رکھا جاتا ہے۔ انکے خاندان والوں کو بھی قید کر لیا جاتا ہے۔ فروری 2023 میں بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ سے 3 لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔
پولیس کے مطابق کنویں سے برآمد ہونے والی لاشوں میں سے 2 مرد اور ایک لاش عورت کی تھی جس کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی گئی تھی۔ یہ سب لوگ بلوچستان کے ایک طاقتور سردار عبدالرحمان کھیتران کی بنائی گئی نجی جیل میں قید تھے۔
جب اس واقعہ پر آوازیں اٹھنے لگیں اورمعاملہ شدت اختیار کرگیا تو اس وقت کی حکومت کو اپنے ہی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کو گرفتار کرنا پڑا۔ سردار عبدالرحمان کھیتران کو بچانے کے لئے بلوچستان کے دیگر سرداروں نے جرگہ طلب کیا۔یہ طبقاتی مسئلہ تھا اور ایک طاقتور طبقے نے اپنی کلاس (طبقے) کی کھل کر حمایت کی۔
اس عمل سے سردار اور عام بلوچ میں فرق واضح ہوگیا۔
یہ جرگہ لندن میں مقیم، خان قلات میر سلیمان داؤد احمد زئی کے چھوٹے بھائی شہزادہ عمر نے کیا تھا۔ اس جرگیکی خان قلات میر سلیمان داؤد احمد زئی نے شدید مذمت کی، لندن سے بیان جاری کیا۔
خان قلات میر سلیمان داؤد احمد زئی نے سانحہ بارکھان کے حوالے سے اپنے بھائی شہزادہ عمر کے جرگہ بلانے کے عمل پر کہا کہ بلوچوں کے حقوق اور اداروں کے ہاتھوں بلوچوں پر مظالم اور عزت نفس کی پامالی پر مسلسل خاموشی کے برعکس صرف بارکھان کے مسئلے پر جرگہ بلانا سمجھ سے بالاترہے۔
خان آف قلات نے کہا کہ بدقسمتی سے حکومتی سطح پر بالواسطہ اور بلا واسطہ عام بلوچوں کا استحصال ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پامالی بھی ہوتی ہے۔
خان آف قلات نے کہا کہ عام بلوچ کے حقوق، جان و مال، عزت کی حفاظت کرنا ہی سرداروں،نوابوں، نوابزادوں اور شہزادوں کی بنیادی اور اولین ترجیح ہونا چاہیے۔
ایک اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ ایک ہزار سے زائد کو خواتین کو قتل کیا جاتا ہے، ان میں سے اکثریت کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل کے واقعات کی روک تھام کیلئے عورت کو ملکیت سمجھنے کا تصور ختم کرنا ضروری ہے۔
ہمارا معاشرہ اور ریاست اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک عورتوں کو ان کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق حاصل نہیں ہونگے۔