|

وقتِ اشاعت :   September 8 – 2023

اگلے سال فروری،مارچ تک انتخابات ہوں بظاہر لگتا نہیں ہے اسباب وعلل یہ کہ ملک میں قابو سے باہر مہنگائی، بے لگام بیروزگاری اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیر اعظم بننے کے لیئے شہباز شریف کی خواہش ناتمام نے پنجاب میں نواز لیگ کی جڑوں کو ہلاکر رکھ دیاہے جن کو پروجیکٹ عمران خان کی ذلّت آمیز ناکامی کے بعد اور ایک نئے پروجیکٹ کی تکمیل سے قبل عارضی طورپر آگے لانے کا منصوبہ ہے۔

پی پی تو چونکہ کافی عرصے سے اقتدار کی مرکزپنجاب میں کمزور بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے اس لیئے پی پی کی قیادت درپردہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے آگے دھائی دیتی رہی ہے۔

کہ ان کو سندھ کے علاوہ بلوچستان جہاں انتخابی کامیابی اسٹیبلشمنٹ کی منشا کے بغیر ممکن نہیں ہے حوالے کردیا جائے تاکہ زرداری جوڑ توڑ کی ھْنر سے حکومت بنا سکیں مگر آثار سے ظاہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پی پی کی اِس درخواست کو نہ صرف مسترد کر دیا ہے۔

بلکہ اْنکے ساتھ وابستہ لوگوں کے خلاف دائرہ تنگ کرنا شروع کر دیاہے کئی لوگ تو برملا اظہار کر رہے ہیں کہ اب تک کی اقدامات سے لگتا ہے کہ انتخابی کامیابی کے لیئے سندھ کے شہری علاقوں میں بھی پی پی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا غالب گْمان ا س طرح ہے کہ سندھ میں اِس بار ایک خاص منصوبے کے تحت پی پی کیخلاف ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کو منظم اور متحرک کیا جارہاہے۔

اور پھر ساتھ میں معاون کے طور پر جماعت اور لبیک ہونگے تاکہ پی پی کا راستہ روکاجا سکے یا بصورت دیگر اْن کوکمزور کیاجاسکے لہٰذا اِس حکمت عملی پر کاربند رہنے کے بعد بلوچستان میں جو لوگ علاقائی پارٹیوں کوچھوڑکر “ہزار ارمان” کے ساتھ پی پی میں شامل ہوگئے تھے کہ زرداری کی مضبوط پناہ میں شایدہم محفوظ رہیں گے۔

اب رپورٹس یہ ہیں کہ خود زرداری سے ہی کہا جارہا ہے کہ آپ ملک چھوڑکرباہرچلے جائیں لہٰذا وہ لوگ اب نواز لیگ میں سے بقولِ شیخ رشید شہبازگروپ، باپ پارٹی میں سے جام کمال اور انوارالحق گروپ اور جمعیت کیساتھ روابط بڑھا رہے ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ کے”کارداروں” کے مذکورہ طرزعمل کو بنیادبناکر اگر دیکھا جائے ۔

تو موجودہ اسٹیبلشمنٹ اِس بار بھی ماضی کی طرح اپنے خاص ترین “ہرکاروں” کو آگے لاکر اکثریت دلاتے ہوئے مسلط کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے جو ملک کو بلاکسی غوروفکر اور بحث وتکرار کے”مفکرین مشرق” کے نظریات،عزائم اور پالیسیوں پرچلا ئیں۔

لگتاہے کہ زرعی اصلاحات کے نام پر ” ایوبی دور” اور انتخابات سے پہلے احتساب کے نام پر” ضیائی دور” کے تجربات کو بیک وقت دہرانے کے عزائم ہیں ۔

مریم نواز اگرچہ کہتی ہیں کہ عوام ناقابلِ برداشت مہنگائی اور بیروزگاری سے پریشان نہ ہوں، نوازشریف آکر کمال کے “کرتب” دکھا ئینگے جس سے اْنکے کے مطابق ملکی معیشت ہندوستان اور جاپان کوپیچھے چھوڑ کر امریکہ اور چین کے بعد دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائیگی، ملک کے تمام مسائل حل ہو جائینگے۔

اور ہم بھی چاندپر پہنچ جائینگے ،ہمارے لوگ بھی سائنس، معاشیات اور آئی ٹی کے میدانوں میں ترقی کرکے عالمی اداروں پر قابض ہوتے ہوئے ہندوستانیوں کو ان اداروں سے نکال باہر کردینگے مگر ان تمام خوش گْمانیوں اورمفروضوں کے برخلاف” واقفانِ حال” کی رائے ہے کہ آئندہ انتخابات میں نوازلیگ میں سے نواز گروپ کو اقتدار سے دور رکھنے کے منصوبے ہیں تاکہ “مفکرین مشرق” کچھ بھی کرنا چاہیں،حرف اْٹھانے والوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کمتر رہے اور متعینہ اہداف اور پالیسیوں میں تسلسل بلا روک ٹوک جاری رہے اور کسی قسم کی خلل نہ آنے پائے۔


انتخابات کے انعقاد کے لیے پریشانی یہ ہے کہ آبادی پنجاب کی ہے اور پنجاب میں اب تک عمران خان “جن کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی ہے” نوازلیگ کی بہ نسبت زیادہ ہر دلعزیزہے اِس وقت اگر دو تین مہینوں کے دوران انتخابات ہوگئے تو عمران خان بھاری اکثریت سے جیت جائینگے جو موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے لیئے قابل قبول نہیں ہے لہٰذا انتخابات اْس وقت تک نہیں ہوسکیں گے تاوقتیکہ عمران خان پنجاب میں غیرموثر نہ ہوں۔ اب عمران خان کس طرح اور کو ن سے نسخے پر غیرموثرہوں گے اس مقصد کو سر کرنے کے لئے اعلیٰ دماغوں کے درمیان صلح و مشورے جاری ہیںاورمہروں کو اسی مناسبت سے ترتیب دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے تاکہ کا کامیابی کے امکانات کو یقینی بنایا جاسکے ۔

گزشتہ سولہ مہینوں کے دوران شہبازشریف حکومت میں رہتے ہوئے ملکی معیشت کو درپیش مسائل کے حل کی خاطر پنکھ پھیلانے کی کوشش کرتے رہے اور اِس مقصد کے لیئے پاکستانی”من موہن سنگھ” اسحاق ڈار کو لندن سے بطورخاص پاکستان لایاگیا جو کمال کے جوہر دکھاکرملک کو مالی گرداب سے نکالیں گے ۔

پر ایساکچھ نہیں ہوسکا بلکہ اْنکے جاہلانہ “جْگاڑی”حرکات،منصوبوں اور پالیسیوں کے سبب نوازلیگ مزید غیرموثر ہوگئی ۔شہباز دور میں ملک اگر معاشی سْدھار کی جانب گامزن ہوتا تو اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد اور معاونت سے حکمران اتحاد اقتدار کی معیادعدالت کے ذریعے بڑھاتے یا پھر اس مقصد کے لیئے دیگر محفوظ ذرائع بروئے کار لاتے مگر پیچیدہ معاشی بحران نے حکمران اتحاد کو “سرکے بل”بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

شہباز شریف بطور وزیراعظم ا س قدر ناکام اور بدبخت ثابت ہوئے جو نوازشریف کے کیسزتک ختم نہیں کرواسکے اور نوازشریف کو اپنی ہی پارٹی کے دور حکومت میں جلاوطن رہنا پڑا حالانکہ میاں لطیف اور پرویز رشید بارہا اعلان کرتے رہے کہ نواز شریف بہت جلد آئینگے مگر اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر کیسز کو” ڈھال”بناکر نوازشریف کو نہیں آنے دیا گیا۔ اْدھر خود نواز شریف بھی انتخابی نشان”شیر” رکھنے کے باوجود جیل جانے کے خوف سے گیدڑ کی طرح لندن کی” بِلّ” سے باہر نہیں نکل سکے جبکہ شہباز شریف نے اپنے تمام کیسزختم کروائے وجہ ظاہر ہے کہ اسکے سوائے اور کچھ بھی نہیں ہے کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر ہے جو خود بھی اعتراف کرتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے من پسند سیاستدان ہیں اس کے برخلاف اگر دیکھا جائے۔

تو نواز شریف کی ماضی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ محاذ آرائی میں گزری ہے لہٰذا موجودہ دور میں اوّل تو خالی خزانہ کے سبب عالمی مالیاتی اداروں،انسانی حقوق کے علمبرداروں اور پھر جمہوریت پسند دنیا کی دباؤ کے تحت انتخابات کروانا۔

بہ امر مجبوری اگر ضروری ہو تو متبادل منصوبہ یہ ہے کہ آئندہ وزیر اعظم نوازشریف کی جگہ شہباز شریف کو بنادیاجائے جو اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں، پالیسیوں اور اقدامات کے ساتھ کْلّی طورپر اتفاق رکھتے ہیں۔

اور موجودہ دور میں “مفکرین مشرق” مختصر مدت کے دوران چونکہ کئی قابلِ عمل کہیئے کہ ناقابلِ عمل اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں لہٰذا اِس منفرد دور میں اسٹیبلشمنٹ کو شہبازشریف کے سوانواز شریف یا مریم نواز پر بالکل بھی بھروسہ نہیں ہے جو ماحول کی گرمی اور سردی کو متاثر کرسکتے ہیں۔