|

وقتِ اشاعت :   September 14 – 2023

سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری منظور کر لی۔

پی ٹی آئی وکلا کی جانب سے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت اور اسد عمر کی ضمانت قبل از گرفتاری سے متعلق درخواستوں پر  سماعت کے دوران معاون وکیل ایف آئی اے کی جانب استدعا کی گئی کہ اسپیشل پراسیکیوٹرز نے سپریم کورٹ میں پیش ہونا ہے لہٰذا سماعت 12 بجے مقرر کر دی جائے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ اسپیشل پراسیکیوٹرز نے خود کہا 10 بجے سماعت شروع کر لیں، فیس نہیں ملی تو ہمارا قصور نہیں ہے۔

جج ابوالحسنات نے معاون وکیل ایف آئی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ایک اسپیشل پراسیکیوٹر کو مدعو کر لیں، باقی بھی پہنچ جائیں گے۔

سیکریٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی کی سماعت 12 بجے کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی وکلا کو اسپیشل پراسیکیوٹرز کی غیر موجودگی میں دلائل دینے کی اجازت دیدی جبکہ اسپیشل پراسیکیوٹرز ذوالفقار نقوی اور رضوان عباسی کمرہ عدالت سے روانہ ہو گئے۔

پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا سائفر کیس کی درخواست ضمانت پر زیادہ سے زیادہ 45 منٹ لوں گا جبکہ اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون وکیل دوبارہ کمرہ عدالت پہنچ آئے اور سماعت میں وقفہ کرنے کی استدعا کی جس پر جج نے کہا جب آپ فری ہیں تو پی ٹی آئی وکلاء فری نہیں، درخواست ضمانت پر سماعت تو آج ہو گی۔

پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا تین مختلف اسپیشل پراسیکیوٹرز موجود ہیں، ہمیں دلائل دینے کی اجازت دی جائے، جس پر فاضل جج نے کہا میں چاہتاہوں پی ٹی آئی وکلاء اور اسپیشل پراسیکیوٹرز دلائل دیں، میں تو درخواست ضمانت پر دلائل آج ضرور سنوں گا، آج پراسیکیوشن دلائل دے نہ دے، درخواست ضمانت پر فیصلہ میں محفوظ کر لوں گا۔

وکیل صفائی بابر اعوان نے کہا اسد عمر تحریری طور پر شامل تفتیش ہوئے ہیں جبکہ اسد عمر بھی روسٹرم پر آ گئے اور انہوں نے کہا میں نے تو خود ایف آئی اے کو خط لکھ کر پوچھا کہ بتائیں شامل تفتیش ہونے کب اور کدھر آنا ہے۔

بابر اعوان کا کہنا تھا اسد عمر براہ راست سائفر کیس کے مقدمے میں نامزد نہیں، 22 اگست کو اسد عمر کی درخواست ضمانت دائر کی تھی، رواں سال مارچ میں سائفر کی انکوائری کو شروع ہوئے ایک سال ہوا۔

اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون وکیل نے اسد عمر کے شامل تفتیش ہونے پر اعتراض اٹھایا جبکہ جج کا کہنا تھا میں آج نہیں سنوں گا، معذرت ہے، درخواست ضمانت پر دلائل ہوں گے۔

پراسیکیوشن کے معاون وکیل کا کہنا تھا اسد عمر کو ایف آئی اے خود آنا تھا، تفتیشی افسر کو ان کے پاس نہیں آنا تھا، ابھی اسد عمر کے کردار پر سائفرکیس میں تفتیش مکمل کرنی ہے۔

سیکریٹ عدالت کے جج نے کہا ایک ضمانت کے باعث دیگر ضمانتیں بھی نہیں سنی جا سکیں، جس پر پراسیکیوشن کے معاون وکیل نے کہا اسد عمر کو مچلکے جمع کروا کر تفتیشی افسر کے پاس جانا تھا، اسد عمر درخواست ضمانت منظور اور توسیع کے بعد شامل تفتیش نہیں ہوئے۔

اسدعمر نے کہا دو بار ایف آئی اے نے بلایا، گزشتہ سال دسمبر اور حال ہی میں بلایا، ایف آئی اے نے ایک اور دو گھنٹوں پر محیط تفتیش کی، شاملِ تفتیش ہونے کے بعد ایف آئی اے نے کہا اسد عمر کا کردار نہیں۔

سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے، جس پر جج ابو الحسنات نے کہا اسد عمر کو کمرہ عدالت میں شاملِ تفتیش کرنا ہے تو کر لیں، سماعت تو ملتوی نہیں ہونی، اسد عمر، چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود کی درخواستوں پر فیصلہ آج کر کے رہوں گا، جتنی مرضی درخواستیں دینی ہیں دے دیں، تمام درخواستوں پر فیصلے آج سناؤں گا۔

اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون وکیل نے تینوں ضمانتوں پر دلائل اکٹھا سننے کی استدعا کر دی جس پر جج نے کہا دو ضمانت اور ایک ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں الگ الگ سنی جائیں گی، جائز بات کریں، عدالت کو بتائیں اسدعمر کا کردار براہ راست نہیں تو مقدمے میں نامزد کیوں کیا؟

اسپیشل پراسیکیوٹر ایف آئی اے شاہ خاور کمرہ عدالت میں پہنچے اور وکیل سلمان صفدر کے دلائل کے دوران مداخلت کرتے ہوئے کہا اسد عمر کی کیس میں تاحال گرفتاری مطلوب نہیں ہے، اسد عمر کے خلاف کوئی ثبوت ابھی موجود نہیں ہے، اسد عمر کی درخواست ضمانت پر دلائل سننے ہیں تو عدالت کی مرضی، تفتیش کے دوران اگر کوئی ثبوت ملا تو اسدعمر کو آگاہ کیا جائے گا۔

وکیل بابراعوان نے استدعا کی کہ ایف آئی اے کے پاس ثبوت ہی نہیں تو ضمانت کنفرم کر دی جائے جس پر جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اسد عمر کی درخواست ضمانت پر اوپن کورٹ میں فیصلہ لکھوانا شروع کر دیا۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا پراسیکیوشن کے مطابق اسدعمر کے خلاف تاحال ثبوت نہیں ہیں، اسد عمر نے شامل تفتیش ہونے کا اظہار کیا لیکن پراسیکیوشن نے شامل تفتیش نہیں کیا، ایف آئی اے کی تفتیش کے مطابق اسد عمر کی گرفتاری مطلوب نہیں ہے، اگر اسدعمر کی گرفتاری مطلوب ہوئی تو ایف آئی اے قانون کے مطابق چلے گی، گرفتاری مطلوب ہوئی تو ایف آئی اے اسدعمر کو پہلے آگاہ کرے گی۔

سیکریٹ عدالت نے اسد عمر کی ضمانت 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض کنفرم کر دی۔