وہ تربت میں بابو عالم کے ہاں مہمان تھے جہاں رات گئے ان کا انتقال ہوا۔
وہ گزشتہ شب بابو عالم کے گھر پر سنگانی سر میں ہی انتقال کرگئے۔
قاضی مبارک نے اہنے انتقال کے حوالے سے پیش گوئی اسی. ہفتے قطب الغیث میر ساگر کو لکھے گئے ایک ادبی خط میں کی تھی جس میں اپنی. ناتوانی کا زکر کرتے ہوئے قاضی مبارک نے لکھا تھا کہ وہ اب بہت کمزور ہڑگئے ہیں بلکہ بعض اوقات بستر سے بھی نہیں اٹھ سکتے اور کھانے پینے میں بھی دل نہیں کرتا۔
مبارک قاضی جنہیں بلوچی ادب میں محبت سے ابا قاضی کا لقب دیا گیا تھا شاعری کی دنیا میں ایک الگ پہچان کے مالک تھے۔
قاضی مبارک کی شاعری نے نصف صدی تک بلوچی ادب کو متاثر کیا، وہ اگلے کئی صدیوں تک بلوچی ادب اور زبان کی خدمت کے ساتھ ساتھ بلوچ تحریک پر اپنی شاعرانہ کمنٹ منٹ کے باعث یاد رکھے جائیں گے۔