جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قاضی القضاۃ کا منصب سنبھالتے ہی اس بات کا حلف اٹھایا ہے کہ ’’ میں اپنے فرائض و کارہائے منصبی ایمان داری، اپنی انتہائی صلاحیت و نیک نیتی کے ساتھ اوراسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور قانون کے مطابق انجام دوں گا،سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کروں گا اور یہ کہ ذاتی مفادات کو اپنے سرکاری فرائض یا اپنے فیصلوں پرحاوی نہیں ہونے دوں گا۔
اور یہ کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو ملحوظ خاطر رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا۔ ہر حال میں تمام لوگوں کو بلاخوف و رعایت اور بلا رغبت و عناد قانون کے مطابق انصاف فراہم کروں گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ میری رہنمائی فرمائے۔‘‘
یہ حلف اللہ تبارک و تعالیٰ سے صرف رہنمائی کی عاجزانہ درخواست ہی نہیں بلکہ ہرقسم کے حالات میں انصاف کی سربلندی کا وعدہ اور عہد بھی ہے۔اس سے قطع نظر کہ ماضی کے قاضی کیسے رہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قاضی القضاۃ کا منصب سنبھالنے سے پیشتر ہی اپنی ایک منفرد تاریخ رقم کر دی تھی جس میں پروٹول لینے سے انکار، بیباک و بے لاگ فیصلے اورسب سے بڑھ کراپنے ہی ساتھی ججوں کے رو برو اپنے اور اپنے اہل خانہ کے خلاف بھونڈے الزامات کے ضمن میں اپنا بھرپور دفاع شامل ہیں۔
جسٹس قاضی نے ایسے وقت میں انصاف کے اعلیٰ ترین عہدے کا حلف اٹھایا ہے جب عالمی رینکنگ میں پاکستان کا عدالتی نظام پست ترین سطح پر شمار کیا گیا ہے۔خود پاکستان میں یہ ڈائیلاگ زبان زد عام ہے کہ ’’وکیل کی بجائے بہتر ہے کہ جج کرلو‘‘۔ بالخصوص نچلی عدلیہ میں حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ دیوانی مقدمات میں مختلف بہانوں سے عدالتی عمل کو اتنی طوالت دی جاتی ہے کہ یاتو متاثرہ فریق مقدمے کے انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی انتقال کرجاتا ہے
یا پھر اپنے معاملات اللہ کے سپرد کرکے سرے سے مقدمے سے ہی دستبردار ہوجاتا ہے ۔ پیشہ ور گواہوں کی موجودگی میں اصل گواہوں کی دال نہیں گلتی اور اول تو ان کی گواہی کی نوبت ہی نہیں آنے دی جاتی یا اگر معاملہ گواہی تک پہنچ ہی جائے تو انہیں دھمکیاں ملنا شروع ہوجاتی ہیں اور زیادہ ’’ہٹ دھرمی اور ضد‘‘ دکھانے پر ان کی جان تک لینے سے گریز نہیں کیا جاتا چنانچہ گواہ دلبرداشتہ ہو کر منحرف ہوجاتے ہیں یا سرے سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔
ایسے مقدمات میں سرکاری و نجی زمینوں پر ناجائز قبضے کے مقدمات سرفہرست ہیں۔ ایسے کیس بھی سامنے آئے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اپنی دن رات کی محنت کی کمائی سے زمین خریدی اور بڑی امنگوں کے ساتھ ذاتی مکان کی تعمیر کے لئے پاکستان واپس آئے تو وہاں پہلے سے ہی پلازے کھڑے ہوچکے تھے۔ اسی طرح کسی بیوہ یا یتیم کی زمین پر ناجائز قبضہ کرکے وہاں مسجد یا مدرسہ تعمیر کرکے چندے اکٹھے کرنا عام ہے اور اگر معاملہ عدالت تک پہنچ جائے تو مدرسے کے بچے ٹرکوں میں بھر کر عدالت پہنچ جانا۔
اور ججوں پر دباؤ ڈالنا کوئی نئی بات نہیں۔ وراثت میں بہنوں اور بھائیوں کے حصے دبا لینے یا ان سے زبردستی ان کا حصہ مختلف حیلے بہانوں سے اپنے نام کرالینے کو گناہ نہیں سمجھا جاتا۔ جائیداد ہڑپ کرنے کیلئے بہنوں کی شادی سے گریز کیا جاتا ہے یہ پھر نعوذ باللہ ان کی قرآن سے شادی کردی جاتی ہے۔ایک اور بدترین گناہ جو دن بدن بڑھ رہا ہے، جائیداد ہتھیانے کے لئے ولدیت کی تبدیلی ہے اور اس کام میں زیادہ تر پٹواری اور ان کے منشی ملوث ہوتے ہیں۔
اپنے پیش روؤں کی طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی زیرالتوا مقدمات کے انبار کا سامنا ہے اور ہزار جتن کے باوجود ان مقدمات کی تعداد میں کمی کی بجائے ہرسال اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ کئی مقدمات ایسے بھی ہیں جن کی سالہا سال سے ابتدائی سماعت تک نہیں ہوئی اور سائلین کی طرف سے جلد سماعت کی استدعا بھی برسوں تک معرض التوا میں پڑی رہی یا پھر سماعت ہوئی بھی تو یہ مقدمات پہلے ہی غیر موثر ہوچکے تھے۔ دوسری طرف ایسے سیاسی مقدمات بھی ہیں۔
جنہیں درخواست دائر ہوتے ہی سماعت کیلئے منظور کرلیا گیا اور اسی دن سماعت بھی شروع ہو گئی اوردنوں میں فیصلہ بھی آگیا۔
آج قوم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ’’گڈٹو سی یو‘‘ کہہ تورہی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قاضی صاحب اپنے اعلیٰ ترین منصب کی باقی ماندہ تیرہ ماہ کی قلیل مدت میں ان عدالتی و انتظامی چیلنجوں سے کیسے عہدہ برآ ہو تے ہیں۔ تاہم جسٹس قاضی ابتدائی اقدامات اٹھا کر ان چیلنجوں سے نمٹنے کی بنیاد بھی رکھ دیں تویہ ان کا نہ صرف اس قوم پر احسان ہوگا بلکہ اس سے ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کی سمت ایک نئی راہ بھی مل جائے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چند مٹھی بھر عناصر کی طرف سے اپنے حق میں فیصلے آنے پر داد کے ڈونگرے برسائے جائیں گے ۔
لیکن اپنے خلاف فیصلے آنے پر جسٹس قاضی کی تضحیک کی جائے گی اور ان کے عہدے کو بھی بے توقیر کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔
تاہم قاضی صاحب سے قوی توقع ہے کہ وہ اپنے درخشاں ماضی کی طرح اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے ان ہتھکنڈوں کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔
ان چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے جسٹس قاضی نے یقیناً کوئی حکمت عملی ترتیب دی رکھی ہوگی۔ تاہم ان کی خدمت میں چند گزارشات ہیں۔ زیر التوا مقدمات کی تعداد میں خاطر خواہ کمی لانے کیلئے اعلیٰ و نچلی عدالتوں میں نئے مقدمات کے ساتھ ساتھ مقررہ تعداد میں زیرالتوا مقدمات کی باقاعدگی کے ساتھ سماعت لازمی قرار دے دی جائے ۔
نیز مختلف بہانوں سے مقدمات کو طول دینے والوں پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں کیونکہ ایسے مقدمات عموماً جھوٹے ہوتے ہیں اور ان سے نہ صرف متاثرہ فریق کی حق تلفی ہوتی ہے بلکہ ان کی طوالت سے دوسرے مقدمات بھی التوا اور طوالت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
بالخصوص چھوٹے شہروں کی نچلی عدالتوں پر کڑی نظر رکھی جائے، ان عدالتوں کے نچلی سطح کے انتظامی عملے کے خلاف کرپشن کی شکایات عام ہیں اور یہ عموماً ججوں کے اختیارات استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مقدمات نمٹانے کے لئے باقاعدہ مدت مقرر کر دی جائے اورعدالتوں سے پندرہ روزہ رپورٹ منگوائی جائے جس میں مقررہ مدت میں نمٹائے گئے مقدمات کی تفصیل یا بصورت دیگر مقررہ مدت میں مقدمات نمٹانے میں ناکامی کی وجوہات بیان کی گئی ہوں۔بالخصوص نچلی عدالتوں میں حاضری اور وقت کی پابندی کو یقینی بنایا جائے ۔
تاکہ سائلین انتظار کی طوالت سے بچ سکیں۔ اس طرح سائلین کی عام شکایت ’’اج جج نئیں آیا سی (آج جج صاحب نہیں آئے تھے)‘‘ کا تدارک بھی ہو سکے گا۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ سائل کے عدالت میں پہنچتے ہی جج کا ریڈر انہیں’’ مژدہ‘‘ سنادیتا ہے کہ ’’جج صاحب آج چھٹی پر ہیں‘‘ اور ساتھ ہی اگلی تاریخ دے دیتا ہے
۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ سب مخالف پارٹی کی ملی بھگت تھی اور بعد میں جج صاحب تشریف لے آئے تھے۔ اسی طرح ججوں کا اس وقت تک تبادلہ نہ کیا جائے جب تک وہ تمام کیس نمٹا نہ لیں کیونکہ ججوں کے اچانک تبادلے کی صورت میں سائلین مایوس ہو جاتے ہیں کہ اب نیا آنے والا جج کیس کی نئے سرے سے سماعت کرے گا۔
پیشہ ورگواہوں کی حوصلہ شکنی کی جائے جبکہ اصل گواہوں کو تنگ کرنے کے ہتھکنڈوں کا تدارک کیا جائے۔ ان ہتھکنڈوں میں گواہوں کی شہادت ریکارڈ کرنے سے پہلوتہی کے مختلف بہانے یا کیس کا باربار التوا شامل ہیں۔بعض مرتبہ التوا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ لہٰذا التوا کی تعداد مقرر کردی جائے اور سماعت کیلئے مقررہ تاریخ پر حاضر نہ ہونے والوں اور عدالتوں کے وقت کے ضیاع کا باعث بننے والوں پر بھاری جرمانہ کیا جائے یا پھر ان کے خلاف یکطرفہ فیصلہ دے دیا جائے۔
وراثت اور زمینوں اورجائیداد پر ناجائز قبضوں کے کیسوں پر خصوص توجہ دی جائے۔ بالخصوص قبضے کی زمینوں پر مساجد تعمیر کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ ان زمینوں کے مالکان سے مسجد کی تعمیر کی باقاعدہ اجازت دینے کی درخواست کی جائے ورنہ یہ مساجد منہد م کر کے زمینیں ان کے اصل مالکان کو لوٹا دی جائیں۔ اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے موجود ہیں۔
وراثت کی تقسیم کے نظام کو موثر بنایا جائے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ نیزجائیدادیں ہتھیانے کیلئے ولدیت تبدیل کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے۔
آخر میں ایک ادنیٰ سی خواہش لیکن گزارش کہ نئے مقدمات چاہے وہ سیاسی ہی کیوں نہ ہوں، کی سماعت فوری کی بجائے ان کی باری پر کی جائے تاکہ باقی درخواست گزاروں کی حق تلفی نہ ہو۔بیشک ان میں سے کچھ اقدامات جسٹس قاضی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے لیکن بطور قاضی القضاۃ وہ ایک مصلح بھی ہیں۔
لہٰذا وہ اس سلسلے میں ضروری احکامات جاری کرسکتے ہیں اور امید ہے کہ بیورو کریسی میں موجود دیانتدار افسران ان احکامات پرعملدرآمد میں تاخیر نہیں کریں گے۔ اگر جسٹس قاضی کے اقدامات کی بدولت معاشرے بالخصوص عدالتی نظام میں تھوڑی بہت تبدیلی آجاتی ہے تو ہم فخر سے کہہ سکیں گے کہ ہم نے انہیں ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ بے جا نہیں کہا تھا۔