مستقبل کیلئے ایک بہتر نظام حکومت اور کچھ اقدار کا تعین کیے بغیر فقط اِس ادراک پر رختِ سفر باندھنا کہ متضاد طرزہائے معیشت پر یقینِ محکم کے حامل دومتصادم بڑے”سپرپاور” کے درمیان،جو ایک دوسرے کیساتھ مخاصمت کی حدتک تضادات اور اختلافات رکھتے ہیں،آباد ہونے کے سبب “بفر” کے طور پر مسافتِ ہستی چونکہ گزرہی سکتی ہے۔
اسلئے تگ ودو کی بلاضرورت بوجھ اْٹھاکر عوام کے اندر حرارت پیدا کرنے کیلئے ایک منظم،متحد اور مضبوط جماعت کے تشکیل کی کیا ضرورت ہے یہ بھی کہ ملک میں اداروں کے استحکام اور اختیارات پر زور، بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول، ملک میں آئین و قانون پر عمل اور نہ ہی جدید دور کے تقاضوں کیساتھ ہم آہنگ سماجی اور سائنسی علوم و فنون اور تربیت سمیت ہنرکے میدانوں پر توجہ دے کر دسترس حاصل کرنے اور مہارت پانے کی ضرورت ہے ۔
ایک ملک کے کرتادھرتا “حاکم”جب مذکورہ ضابطہِ حیات اور فکرو فلاسفہ کے اسیرہوں وہاں حالات کی روش کو جوش کہنے دیجئے کہ لاعلمی اور جہالت کے اندھیروں سے نکال کر عقل و استدلال اور اعلیٰ انسانی اقدار کیساتھ مربوط کرکے مثبت شکل میں رواں رکھنا اور پروان چھڑانا کس طرح ممکن ہے لہذا اِس ملک میں عوام کے سامنے جوابدہی کے برائے نام اصولوں پر استوار جمہوری طرز حکومت کی پرورش اور نمو کے آگے حائل بدیہی اسباب و عوامل کی نشاندہی کرنا اور ناکامیوں کا کھوج لگانا بعیدازقیاس بالکل بھی نہیں ہے ۔
ملک کی نام نہاد جمہوریت پسند پارٹیاں مذکورہ بالا قسم کی داغدار کارناموں کو اگرچہ سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت کے ساتھ جوڑکر حکومتی معاملات میں اِس قسم کی مداخلت کاریوں اور فوجی مارشل لاؤں کے کھاتے میں ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی سعی کرتے رہتے ہیں ۔
مگر پارٹیوں کی جانب سے داغے گئے تمامتر الزامات،دلائل اور توجیہات ماسوائے بہانہ بازیوں،مکاریوں اور من گھڑت لفاظیوں کے اور کچھ بھی تو نہیں ہیں جو سچّائی کی عکاس ہوں اور اگر اِن بنیادوں کو فرضی اور سطحی کہانیوں سے زیادہ اہمیت دیکر دیکھا جائے۔
تو ہندوستان سمیت دیگر بہت سے ممالک میں انگریز دور کی تربیت یافتہ اسٹیبلشمنٹ جو آزادیوں کے بعد انکے حصے میں آئی ایک ہی نوعیت کی تربیت اور ذہنیت کے زیر اثرہونے کے سبب یکساں طرز کی حکمت عملی پر کاربند رہے ہیں ۔
مگر پاکستان کے علاوہ دیگر بہت سے ممالک کی منظم سیاسی پارٹیاں اقتدار، اختیارات اور نظام حکومت کے متعلق چونکہ جمہوری سوچ رکھنے کیساتھ ساتھ عوام کے اندر مضبوط جڑیں رکھتی تھیں اسکے ساتھ ہی وہ پارٹیاں ان ممالک کو”بفر” بناکر خدمات سرانجام دینے کے عزم اور ارادہ ٹھان لینے کے برخلاف آزاد اور خودمختار رہ کر جمہوری اصولوں کی بنیاد پر ترقی دینا چاہتے تھے اس لیئے ان ممالک میں جمہوری ادارے استحکام کی جانب گامزن ہو گئے اور پارٹیاں چونکہ عوام کے صفوں میں وجود رکھتی تھیں۔
اس لیئے ان پارٹیز نے تبدیل شدہ مکان اور زمان کی مناسبت سے سرکاری نظم و ضبط میں اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازیوں، سرمستیوں اور خردماغیوں کو دباکر کنٹرول میں رکھا۔ انکے برعکس اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں جس مسلم لیگ نے ملک کی تشکیل کو بطور تاج سرپر سجائے رکھا وہ مسلم لیگ عوام کے اندر اس قدر نحیف اور کمزور تھی کہ ملک کے قیام کے فقط چھ سال بعد کے انتخابات میں”جگتو فرنٹ” کے آگے شکست سے دوچار ہو گئی۔
اِس آزمائش کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے باپردہ اور بے پردہ طور پر پارٹیوں کے قیام کے نام پر فقط تجربات ہوتے رہے اور یکے بعدے دیگرے پروجیکٹ بنتے رہئے جو اختتام کا نام تک نہیں لیتے ۔
انتخابات میں دھاندلی کے سلسلہِ اعمال کی ابتدء بھی اِس دور کیساتھ ہوئی جو نہ جانے کہاں جاکر رْکے گی؟ بظاہر اس غیرمتعلق صراحت کو بیان کرنے سے منتہائے مقصد یہی ہے کہ اس ملک میں عوام اور محکوم اقوام آج اگر تمام شْعبہ ہائے زندگی میں بدحال اور محشر کی اذیتوں سے دوچار ہیں بلکہ اس سے بھی بدتر عرصہِ حیات گزارنے پر مجبور ہیں۔
تو اسکی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ تو بلاشْبہ ہے ہی ! مگر ملک کی سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان بھی اِس گناہ میں نہ صرف برابر کے حصہ دار بلکہ عمیق نگاہی کیساتھ دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ قصور وار اور ذمہ دارہیں۔
۔اس انداز سے بھڑاس کے اظہار کی وجہ سیاستدانوں اور سیاست کیساتھ کسی قسم کی کوئی ذاتی نفرت،عداوت اور نہ ہی اظہار ناپسندیدگی ہے اس قسم کی منفی آرا کے برخلاف ہر کوئی ذی شعور انسان جانتا ہے کہ کسی بھی ملک اور قوم کی تعمیرو ترقی اور پیشرفت میں کلیدی کردار چونکہ سیاستدان ہی ادا کرتے ہیں۔
وہ عوام کو سراب کی سرگرداں سفر اور گرداب سے نکال کر راہِ راست پر ڈالتے ہیں،وہ پستیوں اور ظلمات کی تیرگیوں کو مٹاکر درخشاں مستقبل کی نہ صرف درس دیتے ہیں بلکہ قواعدوضوابط طے کرکے ان پر عمل کا بندوبست کرواتے ہیں جہاں بنی نوعِ انسان آسودہ حال رہے،جہاں پْرامن بقائے باہم کے اصولوں پر انسان ایک دوسرے کیساتھ محفوظ رہیں،جہاں انسانی مراسم کے درمیان سماجی اْونچ نیچ کی درودیوار حائل نہ ہوں اور زندگی انسانیت کی خدمت سمیت فلاحی سرگرمیوں میں بسر ہو ۔
مذکورہ قواعد کو بنیاد بناکر سیاست کرنا تو درکنار پاکستانی سیاستدانوں کے پاس کرپشن، قومی،صوبائی، علاقائی،گروہی،نسلی اور خاندانی یہاں تک کہ شہری اور تعلیمی و تربیتی اداروں کی بنیاد پر امتیازات اور تعصبات کی جبلّتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔۔
مذہبی بنیاد پر تعصب برتنے کا رواج تو ملک کے تشکیل کی بنیاد میں شامل ہے بالا مْروجات پر کاربند رہنے کی بجائے اِس ملک کے سیاستدان اگر واقعی جمہوریت پر یقین رکھتے اورجمہوری اقدارکے بحالی کی خاطر جدوجہد کرتے تو مجال ہے۔
کہ اسٹیبلشمنٹ جمہوری نظام حکومت کے آگے رکاوٹ بنتی، نہ بارہا مارشل لاء لگتا اور نہ ہی انتخابات کی شفافیت پر اثراندازہوکر من پسند غیرمنتخب لوگوں کو نمائندوں کے طور پر جبراً مسلط کرتے ۔ان معروضات کو نظر میں رکھ کر دیکھا جائے۔
تو ملک میں تمام تر مصائب اور مشکلات کی ذمہ دار سیاستدان ہی تو ہیں جو ملک کو درپیش پیچیدہ مسائل کے حل پر نہ صرف تماشائی ہیں بلکہ اس سے بھی دوقدم آگے لوٹ کے نظام کے دوام میں اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ہم گام ہیں ۔اس سلسلے میں”عمرانی دور حکومت” تک اگرہم ملک کی تمام پارٹیوں کی مشترکہ کردار و عمل اور پھر موجودہ دور میں ان پارٹیوں کے درمیان سراْٹھاتے اختلافات اور کشاکش کو دیکھ لیں” تو شایدہی کچھ سمجھ میں آجائے۔
نوازشریف کو ذلیل کرکے تین بار اسٹیبلشمنٹ نے اگرچہ اقتدار سے ہٹادیا ہے، جیل میں ڈالا ،جلاوطن کردیا ہے وہ تادم تحریر شہبازشریف کی برکات سے جلاوطن ہے وہ ملک میں جمہوریت کی ناکامیوں کے آگے حائل رکاوٹوں اور بنیادی ذمہ داروں سے بخوبی واقف ہیں مگر پھر بھی اقتدار تک رسائی کی خاطر اس قدر پریشان حالی سے دوچارہیں کہ بھولے سے کبھی زبان پر ذمہ داروں کے تذکرے ہوں تو انکی اپنی ہی پارٹی میں کہرام مچ جاتا ہے، پی پی ہو یا پی ٹی آئی غرض کہ تمام پارٹیز کے قائدین کی طلب ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اْن کو گود میں لیکر پالے اور اقتدار کی گدّی پر بِٹھادے اسے آگے ملک ، عوام،جمہوریت اور محکوم اقوام کی بارگراں کو قدرت سنبھالے۔