بالآخرعالمی طاقتوں کو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا پڑا،متفقہ طورپر تسلیم کیا گیا کہ مہلک جنگی ہتھیاروں سے نہیں بلکہ روٹی (معیشت) میسر ہونے سے عالمی طاقت بنا جاسکتا ہے۔
یہ معیشت اور تجارت کی دنیا ہے،معیشت ہی سب کچھ ہے، پیٹ ہی سب کچھ ہے، بھوک اور افلاس ہی سب کچھ ہے۔ بھوک کا کوئی دھرم یا مذہب نہیں ہے اس کا مذہب بس روٹی ہی ہے۔ ریاست اور سیاست سب روٹی (معیشت) کے اردگرد گھومتی ہے۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس میں دنیا کو نیست و نابود کرنے والی عالمی طاقتوں نے روٹی کے سامنے اپنے جوہری ہتھیار پھینک کر روٹی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا۔ یہ مان لیا گیا کہ روٹی ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ یہ روٹی ہی ہے جو انکی ریاست کی بقا اور سلامتی کی ضامن بنے گی۔ ریاست مستحکم معیشت سے ہی مضبوط ہوسکتی ہے۔ ایک دفعہ پھر جدید دنیا نے پہلے سماج یعنی قدیم “اشتراکیت” کی طرف جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انسان کا پہلا سماج اشتراکیت تھا جہاں انسان مشترکہ شکار کرتا اور مشترکہ طور پر کھاتا تھا۔ جسے “کمیون” بھی کہا جاتا ہے۔
جی 20 نامی تنظیم نے دنیا کے مختلف ممالک کو معاشی بنیادوں پر آپس میں جوڑنے کا فیصلہ کیا۔
جی 20 میں امریکہ، روس، انڈیا، ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اندونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، برطانیہ، چین اور یورپی یونین شامل ہیں۔ بھارت میں ہونے والی جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران “انڈیا-مشرق وسطیٰ- یورپ اکنامک کوریڈور” کا اعلان کیاگیا۔
اس پراجیکٹ کا مقصد انڈیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کو ریل اور بندرگاہوں کے نیٹ ورک کے ذریعے جوڑا جائیگاجس کے بعد وہ سمندری راستے سے انڈیا سے منسلک ہوں گے۔ اس کے بعد اس نیٹ ورک کو یورپ سے جوڑا جائے گا۔ پراجیکٹ کے تحت بندرگاہوں سے لے کر ریل نیٹ ورک تک سب کچھ تعمیر کیا جانا ہے۔
“انڈیا-مشرق وسطی- یورپ اکنامک کوریڈور” دراصل چین کے “بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو” ( بی آر آئی) کی طرح ایک منصوبہ ہے۔ سرکاری طور “انڈیا-مشرق وسطیٰ- یورپ اکنامک کوریڈور” کو “بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو” ( بی آر آئی) کے مد مقابل منصوبہ قرار نہیں دیا گیا کیونکہ چین بھی جی 20 کا رکن ملک ہے۔
تاہم یہ کہا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ بی آر آئی کے مقابلے میں لایا جارہا ہے۔
ایک طرف چین ہے جبکہ دوسری جانب دنیا کی مضبوط معیشتیں اسکی مدمقابل ہیں۔
چین نے بی آر آئی منصوبہ 2013 میں شروع کیا تھا۔
جس کے تحت کئی ممالک میں کام اب بھی جاری ہے جبکہ جی 20 ممالک کی قیادت میں “انڈیا-مشرق وسطیٰ- یورپ اکنامک کوریڈور” منصوبہ 2023 میں شروع ہو رہا ہے۔
بی آر آئی کو اب تک کا سے مضبوط منصوبہ قراردیا جارہا ہے۔
کیونکہ اس کا مقصد پوری دنیا میں کسی ایک حکومت یعنی چین یا کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کا اثر و رسوخ پھیلانا نہیں ہے جو کہ بی آر آئی کا اصل مقصد ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے 2013 میں بی آر آئی منصوبے کا اعلان کیا جس کے تحت 66 سے زائد ممالک کو تجارتی سطح پر جوڑا جا رہا ہے۔
جو کہ زمانہ قدیم کی شاہراہ ریشم کے نقشِ قدم پر بنایا گیا ہے۔ منصوبے کی تکمیل کی صورت میں چین کو سڑک اور ریل کی مختلف راہداریوں کے ذریعے ایشیا کے تقریباً تمام ممالک سے ہوتے ہوئے یورپ تک رسائل مل جائے گی۔ ان راہداریوں کا ایک اہم حصہ چین پاکستان اقتصادی راہداری بھی ہے جو کہ گوادر سے خنجراب کے راستے 62 ارب امریکی ڈالر کی مالیت لاگت سے بنایا جارہا ہے۔
چین کا بی آر آئی منصوبہ اس وقت متنازعہ ہوا جب بعض افریقی ممالک کی جانب سے ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ سمجھوتے کو مسترد کردیاگیا۔ افریقی ملک سیئرا لیون میں ایک ایئرپورٹ ، تنزانیہ میں ایک بندرگاہ بھی بی آر آئی منصوبے کا حصہ ہیں۔ دونوں ممالک نے اِن پراجیکٹس کو لاگت اور خود مختاری کے خدشات کے باعث روک دیا ہے۔
دیگر ترقی پذیر ممالک میں بھی اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ بہت سے منصوبوں کی فنڈنگ مہنگے بھاری قرضوں سے کی جاتی ہے، اِن منصوبوں سے میزبان ممالک کی خود مختاری پر آنچ آتی ہے ۔
اور ماحولیات کو نقصان پہنچتا ہے۔ کیونکہ چین کے معاہدے نہ صرف شرائط کے بعد شروع کیے جاتے ہیں بلکہ اِن کے ساتھ بیڑیاں بھی پہنائی جاتی ہیں۔ انہیں منصوبوں میں سے بعض میں بدعنوانی کی ایک طویل فہرست سامنے آئی جن میں ارجنٹینا کے خلائی کمپلیکس سے لے کر اسرائیلی بندرگاہ حیفہ کی توسیع تک کے منصوبے شامل ہیں۔
جی 20 کا منصوبہ چین کے منصوبے سے مختلف نوعیت کا ہے۔ ’انڈیا-مشرق وسطیٰ- یورپ اکنامک کوریڈور‘ کو بے شمار حکومتیں چلارہی ہیں۔ جہاں ون پارٹی حکومت نہیں ہے۔ بلکہ جمہوری ممالک کا ایک مضبوط ڈھانچہ ہے جہاں حکومتیں عوام کو جوابدہ ہیں۔ اس کے مقابلے میں چین میں ایک ون پارٹی حکومت قائم ہے۔
جہاں نہ عوامی مینڈیٹ ہے اور نہ ہی حکمران عوام کو جوابدہ ہیں بلکہ وہاں وَن پارٹی رول ہے جسے آمرانہ حکومت کہا جائے تو بالکل درست ہوگا۔ سارا ریاستی نظام صرف کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے اردگرد گھومتا ہے۔ چین کی معیشت بھی اب سوشلسٹ نہیں رہی، بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے چینی معیشت میں اپنے پنجے گاڑھ رکھے ہیں۔
شی جن پنگ نے 2012 میں اقتدار سنبھالا تو ان کے دور حکومت میں چین آمرانہ حکمرانی کی طرف بڑھا۔
امریکا نے دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ چین نے مغربی سنکیانگ کو ایغور مسلمانوں کے لیے ایک کھلی جیل‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین نے ایغوروں کی ’’تربیت” اور ’’جبری مزدوری” کے لیے پہلے ہی بڑی تعداد میں کیمپ قائم کر رکھے تھے لیکن اب جبر اور زیادتی کا دائرہ پورے صوبے تک وسیع کر دیا ہے۔
شی جن پنگ کا بچپن تنگ دستی اور غربت میں گزرا،عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھنے والے کمیونسٹ رہنما ماؤ زے تنگ نے ان کے والد کو 1962 میں قید کر دیا تھا۔ماؤ کو اپنی پارٹی کے لیڈروں پر شدید شک تھا، خاص کر ایسے لوگ جو انکے حریف تھے، ماؤ نے انہیں جیل میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔ ان واقعات نے شی جن پنگ کے خاندان کو بھی متاثر کیا۔ ان کی سوتیلی بہن نے دباؤ میں آ کر خودکشی کرلی تھی۔ شی جن پنگ کو اس اسکول سے بھی نکال دیا گیا جہاں اعلیٰ سیاستدانوں کے بچے پڑھتے تھے۔ بعد میں انھوں نے 15 سال کی عمر میں بیجنگ چھوڑ دیا۔ان کو ملک کے شمال مشرق میں غربت زدہ لیانگ جیاہ بھیجا گیا تھا۔شی جن پنگ 7 سال تک لیانگ جیاہ میں رہے لیکن کمیونسٹ پارٹی سے نفرت کرنے کے بجائے انھوں نے کئی بار پارٹی میں شامل ہونے کی کوشش کی جو والد کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئے۔ آخر کار 1974 میں ہیبی صوبے میں پارٹی میں جگہ مل گئی۔ وہاں سے شروع ہونے والے سفر کے بعد انھیں پارٹی میں سینئر کردار ملتے رہے۔
آج چین کے ہمسایہ ممالک کیساتھ اچھے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ یہ تنازعہ ساؤتھ چائنا سی میں سمندری حدود کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ساؤتھ چائنا سی سنگاپور سے لے کر آبنائے تائیوان تک 35 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس سمندر سے ملحقہ ممالک میں چین، مکاؤ، ہانگ کانگ، تائیوان، فلپائن، ملائیشیا، برونائی، انڈونیشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور ویت نام شامل ہیں۔ چین پورے ساؤتھ چائنا سی پر اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ جبکہ ہمسایہ ممالک اس دعوے کو غلط قراردیتے ہیں۔
ویت نام، فلپائن اورانڈونیشیا سمیت دیگرممالک ساؤتھ چائنا سی میں چین کے غیرقانونی سمندری دعوؤں پر عوامی سطح پر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ اسی سمندر میں چینی کوسٹ گارڈز کی جانب سے دیگر ممالک کے سمندری حدود میں دراندازی اور مچھیروں سے چھیڑچھاڑ کے واقعات عام ہیں۔
چین کے کوسٹ گارڈز نے ویت نام کے مچھیروں کی ایک کشتی کو ٹکر مار کر ڈبو دیا۔
ایک اور واقعے میں چینی کوسٹ گارڈ کے جہاز بحیرہ مشرقی چین میں سینکاکو جزائر کے ارد گرد جاپان کے علاقائی پانیوں میں داخل ہوئے اور جاپان کی مچھلیاں پکڑنے والی کشتیوں کو ہراساں کیا۔ ملائشیا کے سمندری علاقوں میں توانائی کے پراجیکٹس میں بھی چین کے کوسٹ گارڈ نے مداخلت کی۔
شی جن پنگ بظاہر تو کمیونسٹ رہنما ہیں مگر انکی شخصیت میں مذہبی عنصر بھی نظر آتا ہے۔ وہ چین کے قدیم اور مقامی مذہب یعنی “کنفیوشس مذہب” کو دنیا میں متعارف کروانے میں سرگرم ہیں۔ چینی زبان کی آڑ میں کنفیوشس مذہب کو دنیا میں پھیلانے کی کوششیں جاری ہیں۔ مختلف ممالک کی یونیورسٹیوں میں کنفیوشس سینٹرز کھولے گئے ہیں۔ حالانکہ ماؤ زے تنگ نے “کنفیوشس مت” سمیت تمام مذاہب پر پابندی لگادی تھی۔ آج بھی کنفیوشس مت چین کا سب سے بڑا مقامی مذہب ہے جوتقریباً دو ہزار سال تک حکمرانوں کا مذہب بھی رہا ہے۔
26 اپریل، 2022 کو کراچی میں ایک وین پر فدائی حملہ میںتین چینی باشندوں سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے۔ہلاک ہونے والوں میں چینی کنفیوشس زبان سکھانے والے ادارے کاڈائریکٹر بھی شامل تھا۔ دھماکہ جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے قریب ہوا۔
جس کے نتیجے میں تین چینی آفیشلز ہوانگ گواپنگ، دنگ موفانگ اور چن سائی ہلاک ہوئے۔
حملے میں وین کا ڈرائیور خالد ہلاک جبکہ حفاظت پر معمور دو سیکورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے۔وہ کون سے عوامل تھے جس نے ایک پڑھی لکھی خاتون کو اس نہج پر پہنچا دیا۔
کہ اس نے جان کی پرواہ کئے بغیر فدائی حملہ کیا۔ فدائی حملوں کا یہ عمل پاکستانی حکومت کے لئے ایک پیغام ہے، انہیں اس فالٹ لائن کی اہمیت کو سمجھناچاہیے۔ شاید اس کا سبب روٹی (معیشت) تھی جو بلوچ کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ “سی پیک” کی شکل میں بلوچ کے معاش پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ بلوچ سرزمین کے ساحل اور وسائل پر قبضہ کیا گیا۔ بلوچ کے لئے گوادر پورٹ،سیندک اور ریکوڈک کے دروازے بند ہیں۔ بلوچستان کے ساحل اور وسائل پر چین اور پنجاب سے آنے والوں کا غلبہ ہے۔
حکومت سمیت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بندوق کے زور پر بلوچ سرزمین کو کنٹرول کرنے کی پالیسی ترک کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بلوچ سمیت دیگر چھوٹی قومیتوں کے لئے روٹی میسر کرنے کا بندوبست کرنا چایئے۔ ہتھیار سے ریاستیں نہیں بچ سکتیں۔ اگر ریاستیں ہتھیار سے بچ سکتیں ۔
تو سابق سوویت یونین بچ سکتی تھی۔ کھربوں ڈالر مالیت کے مہلک ہتھیار ہونے کے باوجود سوویت یونین دنیا کے نقشے سے مٹ گیا۔ سوویت یونین کے پاس جدید اسلحہ تو تھا مگر عوام کو کھلانے کے لئے روٹی نہیں تھی۔ روٹی میسر نہ ہونے کی وجہ سے سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ کیونکہ پوری ریاست روٹی (معیشت) کے گھیرد گھومتی ہے اور روٹی ہی دنیا کی عالمی طاقت ہے۔
پنجگور کی سیاسی صورتحال ماضی اور مستقبل کے تناظر میں
ظریف بلوچ
پنجگور آبادی کے لحاظ سے مکران ڈویژن کا دوسرا بڑا ضلع ہے، کھجور کی پیداوار کے حوالے سے مشہور پنجگور میں روزگار کا دوسرا اہم ذریعہ بارڈر ٹریڈ ہے کیونکہ پنجگور کی سرحدیں ہمسایہ ملک ایران سے ملتی ہیں اور اسی وجہ سے پنجگور کے زیادہ تر لوگوں کا روزگار بارڈر ٹریڈ سے وابستہ ہے۔
سیاسی حوالے سے یہ علاقہ قوم پرستوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور اس علاقے میں ہمیشہ قوم پرست پارٹیاں الیکشن جیتتی آرہی ہیں۔ پنجگور میں گزشتہ کئی عرصے سے بی این پی عوامی اور نیشنل پارٹی مضبوط پوزیشن رکھتے ہیں جبکہ مکران کے اس علاقے میں مذہبی جماعت جمیعت علمائے اسلام ایک مضبوط ووٹ بینک رکھتی ہے اور کافی فعال ہے۔ البتہ قوم پرست پارٹی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل قدرے کمزور ہے، پنجگور میں گزشتہ کئی عرصے سے بی این پی عوامی (جس کی قیادت میر اسد اللہ کررہے ہیں )اور نیشنل پارٹی کے درمیان سوشل میڈیا میں لفظی جنگ جاری ہے۔
ماضی کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملنے کے بعد مکران کے صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کو کامیابی ملی تھی۔ کیونکہ اس وقت بلوچ حلقوں میں نیپ کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔جنرل ضیا کے طویل مارشل لاء کے بعد جب ضیا ء کے زیر نگرانی ملک میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے
تو بلوچستان اسمبلی کی نشستوں کو بیس سے بڑھا کر چالیس کردیا گیا اور پنجگور کو ایک صوبائی اسمبلی کی نشست دی گئی۔اس غیر جماعتی الیکشن میں ناصر علی پنجگور سے صوبائی اسمبلی کی نشست سے کامیاب ہوئے۔
ضیا دور کے خاتمے بعد 1988 میں الیکشن ہوئے تو پنجگورمکران کا واحد علاقہ تھا ۔
جہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار صابر بلوچ کامیاب ہوئے تھے۔حالانکہ بلوچستان کی زیادہ تر قوم پرست پارٹیاں بلوچستان نیشنل الائنس کی پلیٹ فارم پر یکجا ہوئے تھے اور بلوچستان بھر میں کامیابی کے بعد نواب اکبر بگٹی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بن گئے تھے جبکہ پنجگور میں پیپلز پارٹی کے رہنما صابر بلوچ نے بلوچستان نیشنل الائنس کے امیدوار میر اسد اللہ بلوچ کو معمولی فرق سے ہرایا تھا۔
اس کے بعد صابر بلوچ نے کبھی بھی الیکشن نہیں جیتا اور 2008 میں جب پیپلز پارٹی حکومت کی بلوچستان میں بنی تو صابر بلوچ کو پیپلز پارٹی نے سینیٹ کا ٹکٹ دیکر کامیاب کروایا اور 2012میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بلا مقابلہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے۔
1990 کے عام انتخابات میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے کچکول ایڈوکیٹ نے معمولی فرق سے جمیت علمائے اسلام کے امیدوار مولوی رحمت اللہ کو ہرایا تھا۔1993 کے الیکشن میں ایک بار پھر کچکول ایڈوکیٹ کامیاب ہوکر بلوچستان کے وزیر فشریز بن گئے اس مرتبہ بھی میر اسد اللہ بلوچ، مولوی رحمت اللہ اور صابر بلوچ سے معمولی برتری سے کچکول ایڈوکیٹ جیت گئے تھے۔1997 کے الیکشن میں بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح بی این پی متحدہ کے امیدوار میر اسد اللہ بلوچ نے بی این ایم کے کچکول ایڈوکیٹ کو ڈھائی ہزار ووٹ سے شکست دیا، بی این پی متحدہ بلوچستان میں اس وقت سب سے بڑی پارٹی تھی۔
اور بعد میں اندورنی اختلاف کی وجہ سے بی این پی متحدہ کئی گروہوں میں تقسیم ہوگئی۔ بی این پی کی تقسیم کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی اور بلوچستان نیشنل پارٹی ڈیموکریٹک وجود میں آگئے۔ بی این پی عوامی اس وقت دو گروپوں میں تقسیم ہے ایک گروپ کی قیادت میر اسرار زہری اور دوسری کی قیادت میر اسد اللہ کررہے ہیں ۔
جبکہ بی این پی عوامی کے تیسرے دھڑے کو سید احسان شاہ نے اپنی غیر رجسٹرڈ پارٹی بی این پی میں ضم کردیا۔بی این پی متحدہ کے اختر مینگل ایک معاہدے کے تحت بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بن گئے مگر یہ حکومت اپنی مدت پوری نہ کرسکی۔
12اکتوبر 1999 کو جب مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹا کر اسمبلیاں تحلیل کرکے نواز شریف کو جلا وطن کردیا ،اور ملک میں ایک نئی سیاسی جماعت بناکر 2002 میں مشرف کے نگرانی میں الیکشن ہوگئے۔ مشرف نے 2002 کے الیکشن میں بلوچستان اسمبلی کی نشستوں کی تعداد چالیس سے بڑھا کر اکاون کردیا اور پنجگور کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کو ایک سے بڑھا کر دو کردیا گیا۔
2002 میں جب ملک بھر میں مشرف دور میں انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ ق کو اقتدار ملا اور پنجگور کی دونوں نشستوں پر بی این ایم کے کچکول ایڈوکیٹ اور رحمت صالح کامیاب ہوگئے اور بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن اتحاد کا حصہ بن گئے۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب ملک بھر میں انتخابات تاخیر کا شکار ہوگئے اور 2008 میں ہونے والے انتخابات میں بلوچ قوم پرستوں نے بلوچستان بھر میں الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو پنجگور کی دونوں نشستوں پر بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے امیدوار میر اسد اللہ بلوچ اور غلام جان کامیاب ہوئے اور بی این پی عوامی کو مشرف کے قریب سمجھا جاتا تھا۔
2013میں بلوچستان میں انسرجنسی کی وجہ سے الیکشن میں ٹرننگ آؤٹ بہت کم رہا اور زیادہ تر پولنگ اسٹیشن ویران رہے۔ بلوچ حلقوں میں انسرجنسی کی وجہ سے چونکہ بہت کم لوگوں نے پولنگ بوتھوںکا رخ کیا اور نیشنل پارٹی کے رحمت صالح بلوچ صرف دو ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ پنجگور کی دوسری نشست پر بھی نیشنل پارٹی کے حاجی اسلام کامیاب رہے۔ نیشنل پارٹی کو مری معاہدے کے تحت بلوچستان کی وزارت اعلیٰ ملی اور پہلی مرتبہ مکران سے تعلق رکھنے والا ڈاکٹر عبدالمالک ڈھائی سال کے لئے وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔
2017 کی مردم شماری کے بعد پنجگور کی صوبائی اسمبلی کی نشست دو سے کم ہو کر ایک ہوگئی اور 2018 کے الیکشن میں پنجگور سے بی این پی عوامی کے میر اسد اللہ کامیاب ہوئے۔ 2024 کے متوقع الیکشن کے حوالے سے ایک بار پھر پنجگور کی نشستیں ایک سے بڑھ کر دو ہوگئیں کیونکہ آبادی میں اضافے کے باعث نئی حلقہ بندیوں کے بعد پنجگور کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد دو ہوگی۔
پنجگور میں اس وقت سیاسی ماحول گرم ہے اور نیشنل پارٹی میں لوگوں کی جوق در جوق شمولیت سے نیشنل پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہوگئی ہے۔ جبکہ بی این پی عوامی سے لوگوں کی استعفیٰ کے بعد بی این پی عوامی کی پوزیشن کمزور ہورہی ہے جبکہ پنجگور میں جمعیت علمائے اسلام ایک مضبوط ووٹ بینک رکھتی ہے۔
اور اہم رہنماؤں کی استعفیٰ کے بعد بی این پی مینگل کی پوزیشن کمزور ہوگئی۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ متوقع الیکشن میں پنجگور میں نیشنل پارٹی کو برتری حاصل ہوگی کیونکہ نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اور پنجگور سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار میر رحمت صالح کی کامیاب پالیسیوں کے بعد پنجگور میں اس مرتبہ عوام کا رجحان نیشنل پارٹی کی طرف ہے اور امکان ہے کہ اس مرتبہ پنجگور کی دونوں نشستوں پر نیشنل پارٹی مخالفین کو ٹف ٹائم دے گی اور کچھ سیاسی تجزیہ کار نیشنل پارٹی کی کامیابی کے دعوے کررہے ہیں۔