|

وقتِ اشاعت :   September 30 – 2023

کسی بھی ملک کی مقتدرہ کے لئے اردگرد کے ہمسائے ممالک یہاں تک کہ سماجی اقدار اور قدرتی ماحول کی تغّیرات سے الگ تھلگ رہنا یا انکے ساتھ مسلسل ٹکراؤ اور تصادم کی صورت میں رہ کر آسْودہ اور خوش حال زندگی گزارنا کمتر تقاضوں کے باوجود ماضی میں بھی دقّت طلب رہاہے۔ پھر موجودہ دور میں جبکہ پوری دنیا سرمایہ کاری اور کاروبار سمیت دیگر لامتناہی لوازمات کی تکمیل کے تحت ایک دوسرے پر منحصر اور مربوط ہے قطعی طور پر ممکن نہیں ہے۔

کہ وہ یکّہ و تنہا رہے اسکے ساتھ ہی ایک دوسرے کے لحاظ کی بنیاد پر باہمی ضروریات اور مفادات سے بالاتریک طرفہ روابط کی اْمید رکھنا ماسوائے دماغی خلل اور خام خیالی کے کچھ نہیں ہے ۔ہاں البتہ قدرتی آفات ، حادثات اور طوفانوں کے دوران دنیا کی جانب سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کسی قوم اور ملک کے ساتھ تعاون اور امدادایک الگ بات ہے لیکن اس سے بھی آگے غور طلب بلکہ دل دہلانے والی بات یہ ہے کہ ” مانگ تانگ ” کو مستقل پالیسی ، ہدف اور عادت بنا کر اپنانے کی کہاں اور کس حد تک گنجائش ہے۔۔

’’بقول ڈاکٹر اشتیاق احمد صاحب کے‘‘ جس طرح کہ ہمارے پیشرو کہا کرتے تھے کہ ایک طرف سوویت یونین اور دوسری جانب امریکہ جبکہ درمیان میں ہم ہیں تو کیا ہم اپنے جغرافیائی محل وقوع کی افادیت سے فائدہ اْٹھا کر گزارہ نہیں کر سکتے ؟ بہت خوب، زندگی گزارنے کے لئے محنت مشقت اور علوم و فنون پر دسترس حاصل کیئے بغیر کس پْرسکون نسخہ اور ٹارگٹ پر نظریں مرکوز رہی ہیں ! مگر پھر بھی ایک دائمی عرصہِ حیات گزارنے کے لئے مذکورہ بالا طرز فکر اور منطق کو بنیاد بنا کر لائحہ عمل ترتیب دیتے ۔

وقت کم از کم اِس اِمکان کو کْنجِ دماغ میں رکھ کر سوچنا تو چاہیئے تھا کہ مستقبل قریب یا بعید میں حالات اگر مخالف سمت اختیار کر لیں تب زندگی کی گزر بسر کس انداز سے ہو۔ یہاں پر اگر ہم کہیں کہ اْس دور میں پالیسیاں اور حکمت عملی ترتیب دیتے وقت پیشرو صاحبان اتنی دور تک سوچنے کی صلاحیت رکھتے یا یوں کہیئے کہ تا حد نظر دْور رس اِمکانی تبدیلیوں کو دماغ کے مرکز میں رکھ کر حکمت عملی اور اہداف ترتیب دیتے تو موجودہ دور میں در در سے ” مانگ تانگ ” کی ضرورت شاید پیش ہی نہ آتی۔

دانشور لوگ کہتے ہیں کہ جو اہداف کارگر نہ ہوں اْن پر چلتے ہوئے مصیبتوں کے انبار سر پرلے کر بھٹکتے رہنے سے بہتر یہی ہے کہ اْن کو تبدیل کر دینا چایئے لیکن مجال ہے کہ کوئی اِس جانب سوچ کر اقدامات اْٹھا لے لہذا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے قائدین ابھی تک اْسی فکر و فلسفے ، حکمت عملی اور پالیسیوں پر عمل پیراہیں ” شاید اِس لیئے کہ “مانگ تانگ” کی جمع پونجی “زر اور دولت ” کی تاثیر سے ممالک یا انسانوں کے درمیان اگر چہ احترام اور باہمی عزت کی بنیادوں پر قائم رشتے متاثر ہو کر دھڑام سے نیچے گر کر زمین بوس ہو سکتے ہیں مگر اِس طرز پر دولت یکجا کرنے میں جان جوکم محنت کی بجائے چونکہ منت سماجت سمیت فقط چند ہی.

 لمحات کی خجالت شامل ہوتی ہے اِس لیئے اس زر میں کرپٹ اور بد اعمال عناصر کے لیئے کمال کی لذت اور مٹھاس شامل ہوجاتی ہے ” یہاں پر یہ اظہار بھی برمحل ہے کہ اْس حکمت عملی پر کار بند رہنے کے سبب امریکہ اور مغرب نے ایک دو نہیں بلکہ تین بار سے زیادہ مملکت ِ”اللہ بخش ” پر تند و تیز بارشوں سے آگے ڈالروں کی ’’ژالہ باری تک ‘‘ کر دی تھی جن کو حکمران ملک کی نمو اور نشوونما پر خرچ کرتے ہوئے ملک کو پسماندگی کی دلدل سے نکال کر سیرآبی اور خوش حالی کی جانب گامزن کر سکتے تھے مگر پھر بھی اِس دولت اور زر سے ملک کے چند سو سیاسی خاندانوں ، سول بیورو کریٹس ، اسٹیبلشمنٹ ، میڈیاکے ساتھ منسلک لاتعداد صحافیوں اور بہت سے ججز کے اثاثوں ، محلات ، عیاشیوں اور دولت میں اضافے کے علاوہ پاکستان کے غیور عوام دولت کی ان سیلابوں کے دوران بھی حالیہ دور کی طرح بدحال ترین زندگی گزارتے رہے۔ ایک تازہ سروے کے مطابق اِس وقت ملک میں دس کروڑ سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اگر دیکھا جائے تو یہ بھی ایک مکمل غیر جانبدارانہ اور مستند سروے نہیں ہے .

کیونکہ پاکستان میں ایک دن ساڑھے تین ڈالر کمانے والے لوگوں کی تعداد دس کروڑ سے کہیں زیادہ ہے ۔ملک میں مہنگائی کی شرح 40 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ ہندوستان اور بنگلا دیش وغیرہ میں مہنگائی کی شرح 9/10 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ روزگار کی فراہمی اور عدم فراہمی کو اس ترازو میں تول کر دیکھنا اور اندازہ لگانا چاہیئے کہ نگران حکومت نے روز اوّل سے ملک میں تیز رفتاری کیساتھ نجکار ی کی ابتداء کر دی ہے جس کے سبب ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ بیروزگار ہوتے جا رہے ہیں، اثرات کو اس طرح پرکھنا چاہیئے کہ حالیہ دور سے پہلے یہ بات زبانِ زد عام تھی .

کہ بیماریوں یا چند دیگر ضروری حاجات اور حادثات کے سبب لوگ اعضاء فروخت کرتے ہیں جبکہ موجودہ دور میں تو لوگ سر بازار ” چوک ا ور چور اہوں پر ” تختی لگا کر اپنے بچوں کو فروخت کر رہے ہیں .

لہذا درپیش صورت حال اور ناقابلِ برداشت مہنگائی کے باعث ملک میں خود کْشیوں، چوریوں اور ڈکیتیوں کے سلسلے چل نکلے ہیں ،ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں اور دیہادتوں کے کیوں تذکرے ہوں جبکہ حالات اس حد تک دگرگوں ہیں کہ اسلام آباد دار اْلخلافہ ہونے کے باوجود چوروں کا مسکن بلکہ مرکز اور آماجگاہ بن چکا ہے ۔اِس کیفیت میں بھی جبکہ پوری دنیا کو قرض دینے والے عالمی مالیاتی ادارے تک پاکستان کے لیئے اپنے قرضوں کی اِجرا کو زردار ممالک کی ضمانتوں کے ساتھ مشروط کرنے پر بضدہیں اس پوزیشن میں بھی ہمارے حکمرانوں کو احساس اور نہ ہی مذکورہ طرزِ عمل پر ندامت ہے.

وہ پھر بھی موجودہ دور کی ضرورتوں کے مطابق حکمت عملی اور معاشی پالیسیاں متعین کر کے چلنے کے برخلاف اپنی ناگْفتہ بِِہ اور ازکارِ رفتہ پالیسیوں اور طرز عمل پر نازاں ہیں۔ .

پھر یہ بھی کہ افغانستان میں متعینہ اہداف اور مقاصد کی تکمیل کے بعد دنیا کے بڑے ممالک کو فی الحال ہماری ضرورت نہیں ہے جو ہمیں داد اور امداد دیں یا مانگ تانگ کے لیئے بھی سفارش کر کے پاکستان کے ساتھ تعاون کریں ۔

ملک اور قوم کے مفاد میں آزادانہ پالیسیوں پر عمل پیراہونے کے برخلاف اعمال اور جغرافیائی محل ووقوع سے فائدہ نہ اْٹھانے کا انجام یہی ہے جس سے کہ پاکستان دوچار ہے۔ اردگرد کے ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں عرب ممالک جو کبھی ’’مانگ تانگ‘‘کے میدان میں معاون اور ضامن ہو سکتے تھے وہ تو موجودہ دور میںہندوستان کے ساتھ جگری یارانہ رکھتے ہیں.

جبکہ ہندوستان کے ساتھ ہماری دشمنی قدرت کی جانب سے متعین کردہ ہے جن کو ظاہر ہے کہ ہم تبدیل نہیں کر سکتے یوں تو ہندوستان اور چائینہ کے درمیان اختلافات موجود ہیں ان دونوں ممالک کے علاوہ اِس دنیا میں بہت سے ممالک کے درمیان اختلافات اور کشیدگیاں موجود ہیں اور جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں مگر ان تمام ممالک کے درمیان اختلافات چونکہ قدرت کی پیداوار نہیںہیں اس لیئے وہ تمام ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات اور جھڑپوں کے باوجود اربوں ڈالرکا کاروبار اور تجارت کرتے ہیں۔ مذکورہ صورتحال میں بھی جن ذمہ دار عناصر نے اپنی پالیسیوں بلکہ مقاصد اور اغراض کے تحت ملک کو بدحالی اور غربت کے اِس مقام تک پہنچا دیا ہے.

اْن کا نام لینا تو درکنار بلکہ زیر لب کچھ بولنے اور سوچنے تک کی اجازت حاصل نہیں ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے برملا کہتے ہیں کہ پاکستان کو کرپشن ، کئی اہم عناصر اور طبقات کی جانب سے ٹیکس چوریوں اور حکمرانوں کی عیاشیوں کے سبب درپیش صورتحال کا سامنا ہے ۔چند صحافی اور سارے دانشور اس آرا کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں مگر ذمہ داروں کو کٹہرے تک پہنچا کر سزا دلا دیں ملک میں بظاہر تو اس قسم کے ادارے اگرچہ موجود ہیں مگر پھر بھی نہ ہونے کے برابر ، ان ذمہ داروں کو سزا دلانا تو دْور کی بات ہے وہ اِن ذمہ داروں کو انصاف کے اداروں کے قریب تک نہیں لا سکتے، ملک کو مسائل کے بھنور سے نکالنا سیاسی جماعتوں اور قومی قائدین کی ذمہ داری ہے لیکن وہ اس پْلِ صراط پر قدم رکھنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے ۔ملک میں 75 سالوں کے دوران کیا کیا ہوتا رہا ہے۔

یہ ایک طویل اور لمبی داستان ہے موجودہ دور میں ذمہ داروں کے متعلق فہم و ادراک رکھنے کے باوجود نواز شریف کو بہ امر مجبوری اور صرف عوام کوبے وقوف بنانے کے لئے ماضی ِ قریب کے ذمہ داروں کے متعلق کچھ کہنے کی زبانی کلامی حد تک ممکن ہے کہ اجازت مل سکے جبکہ شہباز شریف ’’ جو تمام فسادیوں کو دعوت دیتے پھرتے ہیں۔

کہ کسی کو کچھ کرنا ہے تو اسکے لیئے پنجاب کے علاوہ بلوچستان، کے پی کے اور سندھ کے شہری اور دیہی علاقے موجود ہیں‘‘ اس پر بھی پریشان حال بلکہ لرزہ براندام ہے لیکن اس سے آگے عملی اقدامات اٹھانے اور ذمہ دار عناصر کو سزا دلانے کی حد تک سوچنے کی اجازت تک حاصل نہیں ہے۔ اس صورتحال میں ملک بھنور سے نکلے، جمہوریت اپنی روح کے مطابق بحال ہو ، محکوم اقوام کے مسائل حل ہوں، کشکولِ گدائی سے نجات مل سکے، مہنگائی اور بیروزگاری سے دوچار عوام کا مستقبل تابناک ہو، ان سوالوں کے حل کا بندوبست کرانا حکمرانوں اور نہ ہی سیاستدانوں کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔۔

لگتا ہے کہ ملک میں ذاتی اغراض سے آگے اجتماعی مقاصد و مفادات کی تکمیل کے فرائض اور ذمہ داریاں قدرت کے حوالے ہیں۔