حق دو تحریک بلوچستان نے مطالبات تسلیم نہ ہونے کے خلاف مسلح مزاحمت کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پرامن تحریک کو مزاحمتی تحریک میں تبدیل کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ یہ دھمکی حق دو تحریک کے سربراہ اور جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران دی۔
حق دو تحریک کے مطالبات عوامی اور جائز ہیں۔ جن میں سمندر میں غیر قانونی ٹرالنگ پر پابندی، منشیات کا خاتمہ، پاک ایران سرحدی تجارت کی اجازت، لاپتہ افراد کی کی بازیابی سمیت صاف پانی کی فراہمی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ یہ مطالبات 2021 اور 2022 کے دھرنے کا تسلسل ہیں۔
ان مطالبات کے حق میں مولانا ہدایت الرحمان، حسین واڈیلہ، واجہ صبغت اللہ، وسیم سفر، یعقوب جوسکی، شبیر رند، صحافی حاجی عبیداللہ سمیت سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، خود مولانا صاحب 4 ماہ قید میں رہنے کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر رہا ہوئے۔
حق دو تحریک نے 2021 میں گوادر میں پہلا دھرنا دیا۔
جسے حکومتی یقین دہانی کے بعد ختم کردیا گیا ۔ یقین دہانی کے باوجود ان کے مطالبات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا جس کے بعد حق دو تحریک نے 2022 میں ایک اور دھرنا دے دیا۔ جب 25 دسمبر 2022 کو حق دو تحریک کا دھرنا 60 دن میں داخل ہوگیا تو حکومت کی جانب سے پرامن مظاہرین کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے طاقت کا استعمال کیا گیا۔
لاٹھی اور گولیوں کی بارش سے ساحلی شہر گوادر فلسطین کا منظر پیش کرنے لگا۔ حکمران بربریت اور جارحیت میں اسرائیل سے بھی ایک ہاتھ آگے نکل گئے۔ پولیس نے معصوم اور پرامن شہریوں پر دھاوا بول دیا، خواتین اور بچوں تک کو نہیں چھوڑا گیا۔
ان پر تشدد اور متعدد افراد کو حراست میں لے کرلاپتہ کردیا گیا ۔
جبکہ سربراہ حق دو تحریک مولانا ہدایت الرحمان بلوچ گرفتاری سے بچنے کے لئے روپوش ہوگئے۔ رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد گوادر، کیچ، پسنی اور اورماڑہ میں حالت کشیدہ ہوگئے وہیں موبائل انٹرنیٹ اور نیٹ ورک بھی معطل کردیا گیا۔
دھرنے پر فورسز کے تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف مختلف مقامات پر احتجاج کیا گیا۔ ۔
بعض مقامات پر فورسز اور مظاہرین آمنے سامنے آگئے اور کہیں آنکھ مچولی کا سلسلہ چلتا رہا۔۔
گودار شہر کا مکران کے دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ۔ مظاہرین کی جانب سے شہر اور بندرگاہ کے نزدیک فورسز کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا گیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا جس سے متعدد مظاہرین زخمی ہوگئے۔ ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں فورسز نے حق دو تحریک کے کارکنان کے گھروں پر چھاپے مار کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا۔۔
پولیس اور مظاہرین کے درمیان یہ آنکھ مچولی کا سلسلہ کئی دن جاری رہا۔
اور گوادر شہر میں حالات خراب سے خراب تر ہونے لگے۔ گوادر میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں یاسر نامی پولیس اہلکار جاں بحق ہوا۔ ضلع گوادر کے حالات دن بدن خراب ہورہے تھے جس کے بعد مظاہرین کو دبانے کے لئے بلوچستان حکومت نے ساحلی شہر گوادر میں ایک ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کردی۔
گوادر میں حق دو تحریک کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران گوادر پریس کلب کے سنیئر صحافی حاجی عبیداللہ کو بھی گرفتار کیا گیا جنہیں بعد میں سینٹرل جیل تربت منتقل کردیا گیا۔کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیے گئے بزرگ رہنماء حسین واڈیلہ اور دیگر 25 کارکنوں کو منظرعام پر نہ لانے کے خلاف سیشن کورٹ گوادر میں راشد ایڈووکیٹ نے درخواست دائر کردی۔ درخواست میں ڈی پی او گوادر اور انچارج پولیس تھانہ گوادر کو فریق بنایا گیا۔
عدالت سے رجوع کرنے کے بعد حق دو تحریک کے لاپتہ اور گرفتار رہنماؤں حسین واڈیلہ، یعقوب جوسکی، شبیر رند سمیت دیگر رہنماؤں کو سخت ترین سیکورٹی میں گوادر سے تربت، تربت سے پنجگوراور پھر پنجگور سے کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ 7جنوری 2023 کو حق دو تحریک کے رہنما حسین واڈیلہ اور انکے ساتھیوں کو کوئٹہ کے مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے ان رہنماؤں کو 3 دن کے جسمانی ریمانڈ پر کرائم برانچ کوئٹہ کے حوالے کردیا۔
جبر اور لاقانونیت جتنا بھی طاقتور ہوجائے سچ کا راستہ نہیں روک سکتے، بلکہ مشکلات اور تکالیف سچائی کو منزل تک پہنچنے کیلئے قوت اور طاقت بخشتے ہیں۔ گرفتاریاں، جھوٹے مقدمات اور تشدد سے سیاسی کارکنوں کے حوصلے پست نہیں ہوتے ۔ اسی لیے کہا گیا ہے۔
کہ جیل سیاسی کارکن کا دوسرا گھر ہوتا ہے۔
13 جنوری 2023 کو سربراہ حق دو تحریک مولانا ہدایت الرحمٰن کوساتھیوں سمیت گوادر کے مقامی عدالت کے احاطے سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ضمانت قبل از گرفتاری کیلئے وکلاء کے ہمراہ عدالت پہنچے تھے۔مولانا ہدایت الرحمٰن سمیت دیگر ساتھیوں پر سٹی تھانہ گوادر میں مقدمہ درج کیا گیا ، ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن نے دھرنے کے شرکاء کو اشتعال دلایا اور سرکاری گاڑیوں پر پتھراؤ کروا کر لوگوں کو زخمی کیا۔
مولانا کی گرفتاری کے بعد بلوچستان کی ساحلی پٹی میں غیر قانونی ٹرالنگ کا سلسلہ تھم نہ سکا بلکہ یہ مافیا مزید سرگرم ہوگیا۔ خیال رہے کہ گوادر میں حالیہ حق دو تحریک کا پہلا مطالبہ غیر قانونی ٹرالنگ کا خاتمہ تھا۔
ماہی گیروں کے مطابق غیر قانونی ٹرالنگ کے پیچھے طاقت ور لوگ ہیں جن کی جانب سے محکمہ فشریز اور وزارت فشریز کو بھتہ جاتا ہے۔مقامی ماہی گیروں کا شکوہ ہے کہ سندھ سے آئے غیر قانونی ٹرالر باریک جالیوں سے شکار کرتے ہیں، جس سے وہ سمندر کی تہہ کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ مچھلیوں کی افزائش کے ماحول کو بھی متاثر کررہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے حق دو تحریک کے خلاف طاقت کے استعمال کے بعد سندھ کا ٹرالر مافیا مزید طاقتور ہوگیا۔ ضلع گوادر کی ساحلی حدود میں غیر قانونی ٹرالنگ میں مصروف ٹرالرز کو پکڑنے کے لئے محکمہ فشریز بلوچستان کی بنائی گئی ٹیم کے سربراہ انسپکٹر عبدالمطلب زامرانی کو اغوا کرلیا گیا۔
جنہیں 10 روز کے بعد کراچی سے رہا کیا گیا۔18جنوری 2023 کو حق دو تحریک کے گرفتار رہنما حسین واڈیلہ سمیت دیگر رہنماؤں کو ضمانت پر رہائی ملی اور 4 ماہ بعد یعنی 18مئی 2023 کو حق دو تحریک کے سربراہ اور جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری مولانا ہدایت الرحمٰن کو سپریم کورٹ کے حکم پر رہا کردیا گیا۔
یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جب پرامن جمہوری احتجاج کے راستہ بند کیے جاتے ہیں تو لوگ پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں۔ مولانا صاحب کو بھی دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ مولانا صاحب جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں اور جماعت اسلامی فیڈریشن کی مضبوطی پر یقین رکھتی ہے۔
جبکہ دوسری جانب ان کا تعلق بلوچستان کی مقامی تنظیم حق دو تحریک سے بھی ہے۔ جس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بے شمار کامریڈز، قوم پرست اور ترقی پسند رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ جن میں سرفہرست واجہ حسین واڈیلہ ہیں۔ جو کہ اس وقت حق دو تحریک کے مرکزی رہنما بھی ہیں۔
میں (راقم) جب طالبعلمی کے زمانے میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاست میں سرگرم تھا تو اس زمانے میں واجہ حسین واڈیلہ بی ایس او سندھ کے اہم رہنماؤں میں شامل تھے۔ وہ ایک قوم پرست اور ترقی پسند سوچ کے مالک ہیں۔ میں انہیں ذاتی طورپر بہت اچھے سے جانتا ہوں۔ وہ ایک مخلص اور ایماندار انسان ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نظریات کے لحاظ سے ایک وفاق پرست سوچ رکھنے والے رہنما ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے کہ ایسے کون سے عوامل اور وجوہات ہیں جو انہیں وفاق پرستی سے مزاحمت پسندی کی جانب مائل کر ر ہے ہیں۔ جس کی وجہ سے مولانا صاحب نے بلوچستان میں جاری مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے کی دھمکی دی۔ اور انہوں نے دیگر بلوچ شہیدوں کی طرح جام شہادت نوش کرنے کا عندیہ دیا۔ کیا مولانا صاحب کی دھمکی صرف زبانی جمع خرچ ہے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے؟ یہ فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔