|

وقتِ اشاعت :   October 2 – 2023

کئی دہائیوں کی کوشش کے بعد سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے زی لینڈیا کا نقشہ تیار کرلیا ہے جس سے انہیں توقع ہے کہ اس گمشدہ براعظم کے پراسرار ماضی کے راز جاننے میں مدد مل سکے گی۔

زی لینڈیا کو دنیا کا ‘8 واں’ براعظم بھی کہا جاتا ہے جو 19 لاکھ اسکوائر میل رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

مگر اس کا 95 فیصد حصہ زیرآب ہے اور سائنسدانوں کے مطابق لاکھوں سال قبل یہ سمندر میں غرق ہوا ہوگا۔

 

یہی وجہ ہے کہ اس کا نقشہ تیار کرنا بہت مشکل تھا کیونکہ نیوزی لینڈ کے قریب سمندر کی تہہ میں اس کے تمام حصوں کو کھنگالنا آسان نہیں۔

ان سب مشکلات کے باوجود سائنسدان نک مورٹیمر اور ان کی ٹیم نے اس گمشدہ براعظم کا نقشہ 20 سال سے زائد عرصے کی کوششوں کے بعد تیار کرلیا ہے۔

خیال رہے کہ فروری 2017 میں سائنسدانوں نے دعویٰ کیا تھا کہ زمین کے 7 نہیں بلکہ 8 براعظم ہیں جن میں سے ایک ہماری آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود عرصے سے اوجھل تھا۔

انہوں نے اسے زی لینڈیا کا نام دیا جس کا کچھ فیصد حصہ ہی سمندر سے اوپر ہے جس میں نیوزی لینڈ بھی شامل ہے۔

اب سائنسدانوں نے ایک نئی تحقیق میں بتایا کہ اس براعظم کے آخری حصے کا نقشہ بھی مکمل کرلیا گیا ہے۔

اس ٹیم نے 2019 میں جنوبی زی لینڈیا کے نقشے کو تیار کیا تھا اور اب شمالی حصوں پر بھی کام مکمل کرلیا گیا ہے۔

نک مورٹیمر کے مطابق برسوں کی تحقیق اور شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں لگتا ہے کہ زی لینڈیا کو ایک براعظم قرار دیا جا سکتا ہے۔

محققین نے وہاں سے چٹانوں کے نمونے بھی اکٹھے کیے جو کہ 3 کروڑ سے لگ بھگ 13 کروڑ سال پرانے تھے۔

 

اس ڈیٹا سے ماہر ارضیات کو یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ زی لینڈیا کب زمین کے ایک بڑے ٹکڑے سے الگ ہوا تھا۔

نک مورٹیمر نے زی لینڈیا کو ایک بہت بڑے براعظم Gondwana کے معمے کا ایک ٹکڑا قرار دیا۔

عرصے سے ماہرین ارضیات کا ماننا ہے کہ Gondwana ایک ایسا براعظم تھا جو اب انٹار کٹیکا، آسٹریلیا، جنوبی امریکا، افریقا اور بھارت میں تقسیم ہو چکا ہے۔

یہ براعظم 16 کروڑ سال قبل مختلف حصوں میں تقسیم ہوا تھا اور زی لینڈیا کے ارضیاتی شواہد اسے آسٹریلیا اور انٹار کٹیکا سے جوڑتے ہیں۔

سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ یہ براعظم لاکھوں یا کروڑوں سال پہلے آسٹریلیا اور انٹار کٹیکا سے الگ ہونے کے بعد مکمل طور پر زیرآب چلا گیا تھا۔

مگر اب بھی انہیں متعدد سوالات کے جواب ڈھونڈنے ہیں جیسے یہ سب براعظم الگ کیوں ہوئے۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل Tectonics میں شائع ہوئے۔