نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ اپنے تئیں ملک کے ساتھ استوار وفاداری کی مشروط نقش و پیکر کے طور پر پاکستان کو اگرچہ چین کے لیئے اْس حد تک اہم سمجھتے اور قرار دیتے ہیں جس حد تک کہ امریکہ اور مغرب کے لیئے اسرائیل ہے مگر وہ جان کر بھی شاید انجان بننے کی سعیِ لاحاصل کر جاتے ہیں۔
کہ اسرائیلی ” چاہے ہم بوجوہ ناپسندیدگی یا عقیدتی امتیاز اور جْھکاؤ کی بنیاد پر اعتراف کریں یا ازل سے ابد تک اسرائیل کے وجود سے انکار کریں ” دولت ، سرمایہ کاری ، تجارت ، کاروبار اور سائنس سمیت سماجی علوم و فنون کے میدانوں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں لہذا مذکورہ وجوہات کی بناء پر موجودہ دور کی ابدی تقاصوں کے ساتھ ہم آہنگ اِن ناقابلِ تردید مادی عوامل کو بالا جذبات اور احساسات سے پرے دماغ کے بیکراں گہرائیوں میں اْتار کر اگر دیکھ لیں تو ممکن ہے ۔
کہ اسرائیل امریکہ اور مغرب کے لیئے قابلِ بیان حد تک اہم ہو مگر پاکستان ” جہاں تھوڑے بہت سرمایہ کار اگر موجودہیں بھی تو وہ ملک کے قوانین کی اْلجھنوں اور اداروں کے پیچیدہ طرز عمل کی مشکلات سمیت دیگر بہت سے ناقابلِ بیان مسائل ،،جن کے متعلق لکھنے یا بات کرنے کی اجازت اِس ملک میں کسی کے پاس نہیں ہے ۔
حتٰی کہ سوچنے پر بھی بندش ہے، اور پریشانیوں کے باعث ملک سے بھاگ کر بیرونی ممالک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ،۔
دور جدید کیساتھ مربوط سماجی اور سائنسی علوم اور فنون ” ہنر مندی” کے میدانوں میں مہارت نہ رکھنے کے سبب پاکستان کے لوگ انتہائی حد تک کمزور ، پست اور وقت کی رفتار اور ضروریات سے اس قدر پیچھے ہیں کہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جاپان کو ڈھائی لاکھ ہنرمند لوگوں کی ضرورت تھی اْن ڈھائی لاکھ میں فقط دو سو پاکستانی اْس معیار پر پورا اْترنے میں بمشکل ہی کامیاب ہو گئے ۔
جبکہ دیگر دو لاکھ انچاس ہزار آٹھ سوہنر مند لوگ ہندوستان، بنگال اور نیپال وغیرہ سے جاپان چلے گئے اسکے علاوہ یہ بھی ایک پیچیدہ کہنے دیجئے کہ لاینحل مسئلہ ہے کہ پاکستان میں سیاست تو اپنی جگہ ، معیشت وغیرہ جیسے اہم شعبوں کے لیئے ریاست کے پاس متعینہ پالیسیاں اور قوانین موجود نہیں ہیں جو تبدیلیوں کی زد میں آئے بغیر یکسانیت کیساتھ تواتر سے جاری رہ سکیں جنکو چھیڑنا آسان نہ ہو ۔
اس مْروجہ اصول پر عمل کے برعکس پاکستان میں کوئی بھی حکومت برسراقتدار آئے وہ سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کو بیک جنبش قلم تبدیل کر دیتی ہے۔ پھر یہ بھی کہ اداروں میں تناؤ اس حد تک موجود ہے کہ کوئی بھی شخص کسی اہم اور موثر ادارے کا سرپرست بن جائے وہ پالیسیوں کو اپنی طبیعت اور مزاج کے مطابق نہ صرف ترتیب دیتا ہے بلکہ گزشتہ ادوار کے تمام منصوبوں کو منجمد ، منسوخ اور بعض صورتوں میں سرے سے تبدیل کر دیتا ہے۔
یہاں پر جان کی امان پر عرض کرتا چلوں کہ ہم زندگی کے تمام میدانوں میںہندوستان کے ساتھ مسابقت کے لئے کوشاں رہنے کی خواہش رکھتے ہیں جو بلاشْبہ ایک مثبت طرز فکرہے مگر گزشتہ تیس سالوں کے دوران ہندوستان نے کس قدر ترقی کی ہے اس حقیقت کو قبول کرنا تو دْور اس کے متعلق سننا ہمارے لیئے ناقابل برداشت ہے کہ ہندوستان اپنے سیاسی قیادت اور حکمرانوں کی مثبت پالیسیوں اور حکمت کے سبب معاشی پسماندگی سے نکل کر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔
اور معاشی نمو کی میدان میں دنیا کی تیز رفتار ممالک کی صفِ اوّل میں شامل ہے ۔ہندوستانی اس حکمت عملی اور ٹارگٹ پر کار بند ہیں کہ ہندوستان 2030ء تک جاپان اور جرمنی سے آگے نکل کر دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے
، اس وقت بھی ہندوستان دنیا کو آئی ٹی اور سافٹ ویئر ایکسپورٹ کرنے والا بڑا ملک ہے جبکہ ہندوستان کے مقابلے میں میڈیا میں ایک تازہ مشتہر رپورٹ کے مطابق ہم دنیا میں نوے فیصدی گداگر اور جیب کترا ایکسپورٹ کرنے والے ملک ہیں ۔ہم نے ہندوستان کے ساتھ ہی ایٹمی دھماکے کیئے، مان لیتے ہیں۔
کہ یہ ایک بہتر کارکردگی تھی مگر ہمارے حکمرانوں کو یہ تو جان لینا چاہیئے تھا کہ ایٹمی پاور بننا ایک ملک کے مستقبل کاتعین نہیں کرتا اگر یہ بات ہوتی تو روس دنیا کی دوسری بڑی ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود کیوں منتشرہو گیااور کن کمزوریوں نے روس کو انتشار اور ٹھوٹ پھوٹ کی طرف دھکیلا؟ سب جانتے ہیں۔
کہ معاشی کمزوریوں نے روس کو انتشار کی طرف دھکیلا،ا س دنیا پر راج وہی ممالک اور اقوام کرتے ہیں جو معاشی طور پر مضبوط ہوں تو سوال یہ ہے۔
کہ پاکستان کس طرح چائینہ کے لیئے اہم ہے نگران وزیر اعظم یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان گو کہ کئی میدانوں میں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی بلکہ عملی تعاون تک کرتا رہا ہے بعض لوگ تو اس سے بھی بڑھ کر بہت کچھ کہتے ہیں جن کوہم کمزور ڈومیسائل رکھنے کے سبب بیان نہیں کر سکتے ۔
مگر یہاں پر یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں جب سے طالبان برسرے اقتدار آئے ہیں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات ماضی کے مقابلے میں ناقابلِ بیان حد تک کشیدہ ہیں ، افغان طالبان ڈیورینڈ لائن کو بھی سرحد نہیں مانتے لیکن اِس سے آگے رپورٹس یہ ہیں کہ چائنہ،جس کے لیئے ہم خود کو اسرائیل کیساتھ تشبیہ دیتے ہوئے نہیں تھکتے، نے اس دوران افغانستان کے ساتھ غیر مشروط طور پر نہ صرف سفارتی تعلقات کی تجدید کر دی ہے ۔بلکہ اِس سے دو گام پیش قدمی کر کے تجارت اور کاروبار کے لئے ماہ ستمبر کے دوران افغانستان کے صوبے بدخشاں سے چابہار تک سی پیک کے طرز پر ایک سڑک پر کام شروع کر دیاہے جبکہ سی پیک پر کام کی رفتار اور پیش رفت جمود کا شکار ہے ۔
دانشور لوگ یہاں تک تو مانتے ہیں کہ ساحلِ بلوچستان کی افادیت کے سبب پاکستان اس خطے میں جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے تجارت اور کاروبار کے لیئے انتہائی اہم اور موزوں ملک ہے مگر سوویت یونین دشمنی کی بنیاد پر امریکہ اور مغرب سمیت عرب اسلامی ممالک خصوصاّ سعودی عرب نے بعض مؤثر عناصر کو پیدا کر کے پاکستان میں جن افکار کی تخم ریزی کرتے ہوئے آبیاری کی اْنکی آب و تاب ” تاثیر” اِس قدر تند و تیزہے کہ اب اْن کے خالق خود بھی حیران و پریشان ہیں کہ وہ اِس چمن کی بیخ کنی کر کے کس طرح اسے اْجھاڑ یں جو اْنکی دانست میں اب ناسْور کی طرح وبالِ جان بن چکی ہیں۔ سماجی علم و شعور رکھنے والے کسی وجود میں اْفکار کی پرورش کرتے وقت اس یقینی اندیشے کو دماغ میں ضرور رکھنا چاہیئے ۔
کہ توانا بننے کے بعد لازم نہیں ہے کہ وہ خالقوں کے قابو میں رہیںاور شیطان کے نقشِ قدم پر چل کر بغاوت نہ کر دیں۔ اس سلسلے میںبے شمار مثالیں بطورے ثبوت موجودہیں۔
خود ہمارے قابلِ ستائش اور ملک کے ساتھ وفادار قیادت نے ایک طرز فکر کی آبیاری کی اور ان کو تناور بنا یا اب صاف ظاہر ہے کہ وہ موجودہ دور میں قیادت کے قابو سے باہرہیں اور انسانی جبلت کے باعث بعض صورتوں میں ردعمل کا روپ دھار سکتا ہے۔
پی ٹی آئی اس سلسلے کا ایک ثبوت ہے جنہوں نے اپنے خالقوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کی ہے اور اْن افکار سے دست کش ہونے کے لیئے ہنوز تیار نہیں ہے بلکہ بضد ہے کہ ہمارے سامنے جن اجزائے ترکیبی کو چور ڈاکو قرار دے کر انکی کرپشن کو ملکی پسماندگی کا جزوئے لاینفک کہا گیا ہے ہم اِن چور ڈاکوؤں کیساتھ نہیں چل سکتے، پھر یہ بھی کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے منظم اور باقاعدہ رابطہ مہم اور سوشل میڈیا میں خود کو عوام کیساتھ جوڑے رکھا ہے اس لیئے ایک تازہ سروے کے مطابق وہ عوام کے اندر حکمرانوں کی امیدوں اور گْمان کے اندازوں سے زیادہ مقبول ہے اور اس وقت اگر انتخابات ہو گئے تو پی ٹی آئی غالب اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کر لے گی اورموجودہ حالات میں پی ٹی آئی اقتدار میں دوبارہ آجائے۔
یہ بعض قوتوں کے لیئے اس وقت قابل قبول نہیں ہے ۔اس ملک میں درست اور بر وقت رائے قائم کرنا ’’ ہم تو خیر چھوٹے قد کے کم علم لوگ ہیں ‘‘ بڑے بڑوں کے لیئے آسان نہیں ہے لہٰذا اگلے سال جنوری/ مارچ تک انتخابات ہونگے یقین کیساتھ کچھ کہنا فی الحال قبل از وقت ہے۔ یہاں پر یہ بھی کہ گزشتہ دھائی کے پیدا کردہ مصائب سے عوام کو کب نجات ملے گی۔
اس پر ملک کے تجربہ کار سیاستدان بھی گومگوں کی غیریقینی صورتحال سے دوچار ہیں ۔ملکی اسٹیبلشمنٹ کا ہرکارہ شہباز شریف کے دور حکومت میں اسحاق ڈار غمزہ و عشوہ اور ادا کیساتھ لندن سے لوٹ آئے کہ میں ڈالر ریٹ کو ایک سو چالیس/ پچاس تک لے آؤنگا مگر بعد میں سب دیکھتے ہی دیکھتے رہ گئے کہ ڈالر نے تین سو کوعبور کردیا۔ ساجد تارڑ صاحب کہتے ہیں کہ یہ سمجھ لینا سراسر جھوٹ ہے کہ ہمارے نمائندوں کے پاس علم اور سمجھداری کا فقدان ہے۔
اسکے برعکس اگر دیکھا جائے توہمارے نمائندے دنیا کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں کی پیداوارہونے کے سبب کچھ جانتے اور سمجھتے ہیں ہاں البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ لوگ فقط حکومت کرنے اور لوٹ کی بازار کو گرم رکھنے کے لیئے پاکستان آتے ہیں یا اس ملک میں موجودہیں تاکہ ملک کی دولت میں سے حصہ سمیٹ لیں، اس سے زیادہ انکے ارمانوں کی نگری پر آباد تعمیر کردہ محلات ، دولت ، کاروبار ، سرمایہ اور بچے سب کے سب پاکستان سے باہر ہیں۔ سیاستدانوں کے علاوہ کئی اداروں کے بڑے لوگ فراغت کے بعد پاکستان میں نہیں رہتے عمران خان سب کو طعنہ دیتے رہتے ہیں مگر ایک بار اینکر کییسوال کے جواب میں وہ اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان کے حالات چونکہ متوازن ” نارمل” نہیں ہیں اس لیئے میں اپنے بچوں کو کبھی نہیں کہونگا کہ وہ پاکستان آئیں ۔ان مخدوش حالات میں اگر کارل مارکس دوبارہ جنم لے اور پاکستان آجائے وہ بھی لاچارہو کر سب کچھ قدرت کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا سو یہاں ” ہلّا ” بول کارگر رہے، ممکن نہیں ہے اسکے برخلاف قدرت کے سہارے اللہ بول کر دم آخر تک چلتے رہنا چاہیئے۔