اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا ہےکہ لاپتہ افراد کیسز دنیا میں پاکستان کے نام پر سیاہ دھبہ لگا رہے ہیں،کوئی ملک آپ کو ڈالر نہیں دےگا اگر آپ کے شہری محفوظ نہیں ہوں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب پر مشتمل بینچ نے صحافی مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کی درخواستوں پر سماعت کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نےکہا کہ اٹارنی جنرل آج دستیاب نہیں، آئندہ سماعت پر دلائل دیں گے۔
عدالتی معاون فیصل صدیقی نےکہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں عدالت کے سامنےکہتی ہیں کہ ہم نے نہیں اٹھایا، ہر کوئی جانتا ہےکہ انٹیلی جنس ایجنسیاں لوگوں کو لاپتہ کرتی ہیں، عدالتوں کو شہریوں کو لاپتہ کرنےکا عمل کسی طور برداشت نہیں کرنا چاہیے۔
عدالت نےکہا کہ بار بار ڈائریکشنز جاری کرتے ہیں لیکن کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا، لوگ لاپتہ ہو جاتے ہیں لیکن ریاست کچھ بھی نہیں کرتی، ریاست طاقت ور ہے لیکن لاپتہ افراد کےکیسز میں کہتی ہےکہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نےکہا کہ 5 سال سے یہ اپیلیں زیر التوا ہیں، ہمیں ایسے بیٹھتے بھی شرمندگی ہوتی ہے، لوگوں کا لاپتہ ہونا ملک کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ لاپتہ افراد کیسز دنیا میں پاکستان کے نام پر سیاہ دھبہ لگا رہے ہیں،کوئی ملک آپ کو ڈالر نہیں دےگا اگر آپ کے شہری محفوظ نہیں ہوں گے، وزیراعظم نے بھی پیش ہو کر اس عدالت کو گمراہ کیا، اگلے وزیراعظم آئیں گے تو ان کی ترجیحات کچھ اور ہوں گی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نےکہا کہ اس معاملے پر کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کمیٹی بنی تو پھرکیا ہوا سب کو پتہ ہے، عملی کام کریں۔
جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل وزیر اعظم سے ملیں اورپیش رفت رپورٹ لے کرآئیں، اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پر عدالت کی معاونت کریں ۔
کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔