انسانی سماج جب پستیوں کی حدود اور قیود کو پار کر کے زوال کی انتہاؤں کو چْھونے لگے جہاں مثبت انسانی اقدار پنپنے کی بجائے تسلسل کے ساتھ تباہی کی جانب گامزن ہوں ۔
جہاں عدل و انصاف اور قانون پر عمل کے برخلاف جنگل راج رواج پا کر زورآور اور زرداروں کی منش پر لوحِ ازل کی مانند انمٹ روپ دھار لے جن کو تھوڑنا یا تبدیل کرنا نوع انسان کے اختیار اور دسترس سے باہر رہ جائے اور سماج کے تمام شعبوں میں دھوکہ دہی، فراڈ ، ملاوٹ ، جعل سازی ، جھوٹ اور کرپشن سرایت کر جائے پھر یہ بھی کہ کوئی ایک جماعت اور شخصیت بھی ایمان داری کے ساتھ خلقِ خدا کے مفادات کی ترجمانی اور نگہبانی کے لیئے آمادہ نہ ہو ، مجرموں کو ہر قسم کا تحفظ حاصل ہو ۔
جبکہ بے گناہ لوگ صدائے حق کی پاداش میںہر روز اغواء ہوتے رہیں، زندانوں میں سَڑتے، اذیتیں سِہتے اور دار و رسن کی آزمائشوں سے گزرتے رہیں تو اْس سماج پر فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔ کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگر جہاں سننے والے موجود ہی نہ ہوں وہاں کوئی کہے بھی تو کس سے کہے اس لیئے زیادہ نہیں کہنا چاہیئے پھر یہ بھی کہ رسمِ دنیا ہے۔
کہ حق اور سچ کے اظہار کی سزا پیالہِ زہر کی شکل میں ملتی ہے۔
مگر دماغ کے بند در و دیواروں کو کھول کر ذرا سوچنا چاہیئے کہ ایک سماج کے ذمہ دار لوگ جب ملک اور عوام کی دولت کو اِس بنیاد پر اپنی فرمائشوں اور عیاشیوں کی نذر کر دیں کہ مستقبل اگر آسائشوں کیساتھ نہ سہی تو ذلّت اور رسوائیوں کی برداشت پر اور پھر دست درازی کے سہارے بھیک، امداد اور قرضوں پر گزر جائے گی۔۔
عام لوگ جو ملک میں کمزور ڈومیسائل رکھتے ہیں ضرور قدرت نہیں رکھتے کہ وہ دوٹوک تو کیا عاجزانہ طرز پر بھی ملک کے حکمرانوں کے متعلق مستند اور ناقابلِ تردید سچائیوں کو سامنے لا کر افشاں کر دیں۔
مگر پنجاب سے تعلق رکھنے کے سبب ڈاکٹر اشتیاق احمد صاحب کہتے ہیں کہ 1947ء کے زمانے میں پاکستان کے 30 ملین ڈالر امریکہ کے اندر موجود تھے تو اْس وقت کے رہبر اعلیٰ نے اِس زر سے اپنے لیئے ایک ” رولس رائیز کار ” اور گورنر جنرل کے لیئے ایک جہاز کی فرمائش کر دی مگر پیسہ ان دونوں فرمائشوں کی تکمیل کے لیئے چونکہ کم تھی سو جہاز اْس سائیز کی نہ مل سکی مگر اس جہاز کی جگہ پر ” ڈاکٹر اشتیاق احمد” کے بقول جہاز کی سائیز کو تبدیل کر دیا گیا۔
اب اس قسم کی ذہنیت اور طرز عمل سے نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ ایک غریب ملک کے حکمران جب عیاش طبعی میں جدی پشتی اور روایتی بادشاہوں سے آگے نکل جائیں تو ایک کمزور اور پسماندہ ملک جو بے شمار مالی مسائل اور مشکلات سے دوچار ہو وہ ترقی اور پیش رفت کی راہ پر کس طرح آگے بڑھ سکے گا۔ اگر دیکھا جائے تو اِس ملک کی پسماندگی کے پیچے ایک دو نہیں بلکہ بہت سے عوامل کار فرما ہیں وضاحت کیساتھ بیان کرنے کی ہر گز ضرورت نہیںہے سب جانتے ہیں
کہ اس ذہنیت نے کم ہونے کے برعکس ملک کے حکمران اشرافیہ اور اعلیٰ عہدیداروں کے اندر سماج کے عمومی نفسیات کی شکل میں وسعت حاصل کر لی ہے اب یہاں پر کوئی خود ہی اندازہ لگا لے کہ اِیک غریب اور مقروض ملک کے وزراء ، منصب دار ، سیاستدان، بیوروکریٹس اور اسٹیبلشمنٹ کے کارندے جن سواریوں پر اور جس کروفر کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں یا جن بنگلوں اور محلات میں شب و روز زندگی گزارتے ہیں اِس طرح تو نوآبادیاتی دور میں برطانوی سامراج کے قہار ترین حکمران کرتے رہے ہیں اور نہ ہی موجودہ دور میں امریکی حکمران کر سکتے ہیں۔
اسباب و علل یہ کہ نوآبادیاتی دور میں برطانوی حاکم اور پھر حالیہ دور میں امریکی حکمران قانون سمیت اپنے عوام کے سامنے جواب دہ ہیں جبکہ ہمارے حکمران عوام کے آگے جواب دہ نہیں ہیں
اور قانون کو تو یہ لوگ جیب کے بٹوہ میں رکھ کر بِلا خوف و خطر سکون سے گھومتے ہیں۔ دور جدید کیساتھ ہم قدم مْروجہ جمہوری روایات اور اصول و ضوابط پر عمل کے برخلاف اس ملک میں کتنی بار قانون شِکنی کی گئی ، ملک میں مارشل لاء لگا کر عدل و انصاف ،انسانی حقوق، قانون اور آئین کولپیٹا گیا مگر ان حرکات کے باوجود کتنے طالع آزماؤں سے اب تک باز پْرس کی گئی ہے جواب نفی میں ہے ۔منتہا یہ کہ قانونی دائرہِ اختیار اور حدود میں رہتے ہوئے جواب طلبی یا باز پْرس اور سزائیں تو دْور اْن عناصر سے آج تک کسی نے عام دیوانوں اور مجالس میں پوچھا بھی نہیں ہے کہ کون سی مجبوریوں یا ضرورتوں کے تحت ملک کے آئین اور قانون سمیت انسانی حقوق اور آزادیوں کو معطل رکھنا ضروری تھا ۔ اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ وفادار بلکہ اْنکی پیداوار سیاستدان ماضی کی اْن تمام اقدامات ، اعمال ، قانون اور آئین شکنیوں کو بھلا کر ایک دوسرے کے سہارے اور باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھنے اور ایک شروعات کرنے کے لیئے آمادہ ہیں مگر اب کے بار فرق بس یہی ہے کہ نواز شریف کی دلی خواہش اور کوشش یہاں پر کہنے دیجئے
کہ ” ارمان” ہے کہ چلئے سزا و جزا کے مطالبات کے بغیر بیانیے کی اظہار کے وقت اْن کو بس اس حد تک جانے کی اجازت دے دی جائے کہ وہ پروجیکٹ عمران خان کے ذمہ داروں کو ، دبے الفاظ کے ساتھ مبہم شکل میں ہی سہی، سامنے لائے وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ ذمہ داروں کو جیل میں ڈالا جائے یا قانون کے شکنجے میں لایا جائے اسکے برخلاف نواز شریف دل ہی دل میں چاہتے ہیں کہ وہ لوگ بس ذمہ داری قبول کر لیں کہ اس دوران ہم نے واقعی عمران خان کے ساتھ تعاون کیا ہے
یہ بھی کہ ذمہ دار عناصر اگر اعتراف کرنا نہیں چاہتے تو بلاشک نہ کریں دوسری صورت یہ ہے کہ عدالت کے ذریعے واضح ہو جانا چایئے کہ اْس دوران عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے حمایت ملتی رہی ہے اس اعتراف یا عدالتی فیصلے پر وہ بلاشبہ معافی مانگیں اور نہ ہی اْنکو سزائیں دی جائیں نواز شریف بس ذمہ داروں کاتعین کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اس سے زیادہ وہ کچھ بھی نہیں
چاہتے لیکن پاکستان میں بڑے اور با اختیار لوگ جو پاک دامنی میں فرشتوں سے بھی اعلیٰ و ارفع ہیں اور پھر اْن میں طاقت اور ایکتا بھی ہے وہ اپنی غلطیوں اور ناپسندیدہ حرکات کو خود مان لیں کہ ہم سے کوتاہیاں سر زدہو چکی ہیں یا یہ بھی کہ ملک کے ناسمجھ اور کمزور دماغ جاہل سیاستدان جو حشرات سے کمتر بساط رکھتے ہیں اْنکو ذمہ دار ٹہرائیں یہ عمل ان کے مزاج اور طبیعت کے سراسر منافی اور ایک ناقابل برداشت فرمائش ہے اس لیئے وہ عناصر التجاؤں کے ذریعے کوتاہیوں کو کہاں قبول کر لینگے اِس ناقابل قبول طلب کے ردعمل نے ،، پی ٹی آئی کے متعلق نرم رویّوں یہاں پر محمد علی دْرّانی کی جانب سے مائنس عمران خان فارمولے پر اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان مصالحتی کوششوں کو
گوشئہِ دماغ میں رکھ کر غور کیجئے اور پھر گزشتہ چیف جسٹس بندیال کی طرف سے نیب کے تمام بند کیسز کو دوبارہ کھولنے کی صورت میں ،، خود کو عیاں کر دیا ہے اِن اقدامات اور فیصلوں کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے ” کاردارے خاص” شہباز شریف سمیت جْگاڑی ماہر معاشیات اور سابقہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ،، جو نواز شریف کے رشتہ دار اور قابلِ اعتماد ترین شخص ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تئیں خود کو من موہن سنگھ سے زیادہ سمجھدار اور بڑے درجے کا معاشیات دان سمجھتے ہیں
یہاں پر یہ ایک الگ بات ہے کہ انکے معاشی منصوبوں کی برکات سے ملک سر سے پاؤں تک مقروض ہے اور حالت یہ ہے کہ ایک طرف اب دوست ممالک سمیت تمام مالیاتی ادارے ہم سے پرے رہتے ہوئے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو دوسری جانب کوئی بھی ملک سرمایہ کاری کے لیئے پاکستان آنے کے لیئے تیار نہیں ہے ،، کی خواہش اور کوشش ہے کہ ماضی کے تمام تر اقدامات اور حرکات کو بھلا کر آگے بڑھنا چایئے ۔شہباز شریف ، اسحاق ڈار اور پارٹی میں موجود دیگر تمام اسٹیبلشمنٹ نواز قیادت نے مریم نواز کو بھی بڑی حد تک کنونس کیاہے
کہ ماضی کو دفن کر کے اسٹیبلشمنٹ دوستی کی بنیاد پر آگے بڑھنا چایئے۔ دانشور لوگ جو نواز شریف کو قریب سے جانتے اور پہچانتے ہیں کی رائے ہے کہ نواز شریف اپنے موقف اور بیانیے کو لپیٹ کر اسٹیبلشمنٹ کیساتھ چلنے کے لیئے آمادہ ہو جائینگے
بلکہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف نے اْس بیانیے کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا ہے وہ لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف کہاں سے کسی اصولی سیاست کے تسلسل کے پیداوارہیں وہ خود بھی تو جنرل جیلانی اور ضیا ء الحق کی شِہ پر میدان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں لہذا نواز شریف ضرور اْستادوں کے نقشِ قدم پر چلیںگے۔ دیکھتے جایئے کہ ماہِ رواں کیا رنگ دکھائے گی اگلے سال جنوری/فروری تک انتخابات ہونگے یا نہیں یہ سوال بھی نواز لیگ اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے لیئے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے تازہ سرویز “جو گیلپ کے علاوہ مختلف پارٹیز نے الگ الگ کروائی ہیں” کے مطابق پنجاب اور کے پی کے میں پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت بہت زیادہ ہے
پی ٹی آئی کی مقبولیت کو شاید دو اسباب نے یکجاہ ہو کر بڑھا دیا ہے اوّل یہ کہ عمران خان کے دورِ حکومت کی نسبت شہباز شریف کی حکومت میں مہنگائی نے کم و بیش 12/13 فیصدی کی حدود کو عبور کر کے 40/41 فیصدی تک پہنچ گئی ہے۔
دوئم یہ کہ حکومت سے بے دخلی کے بعد عمران خان نے نواز شریف کی طرح بلکہ اس سے شدید ترین طرز پر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنا کر سیاست شروع کر دی پھر یہ بھی کہ چاشنی اور مِٹھاس دوبالا کرنے کے لیئے اْس پر امریکہ مخالف موقف اپنایا ۔
دانشور لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت جنوری/فروری تک اگر انتخابات کروائے گئے تو اْن انتخابات میں پی ٹی آئی کوہرانے کے لیئے ملک کی تاریخ کی رْسوا ترین دھاندلی کی ضرورت پڑے گی ورنہ متعینہ وقت کے اندر معمولی بندوبست کے ساتھ پی ٹی آئی کوہرانا ممکن نہیںہے ۔ویسے انتخابات کی جھنجھٹ سے جان چْھڑانے کے لیئے بیک وقت دو نسخوں پر عمل کی ابتداء کر دی گئی ہے۔
دیکھیئے پاتے ہیں عشّاق بْتوں سے کیا فیض