سب جانتے ہیں کہ اِس خطہِ ارض میں تجارتی اور کاروباری مقاصد کی توسیع و تکمیل کے لیے اگر پاکستان کو کوئی حیثیت حاصل ہے تو اِس کا ستون بلوچستان کا جغرافیائی محل وقوع ہے بلوچستان عالمی تجارتی گزرگاہوں کی شہ رگ پر واقع ہونے کے سبب بلوچ قوم کے لیئے اْنکے آبا ؤ اجداد کی دْور اندیشانہ ذہانت اور قدرت کی جانب سے ایک انمول تحفہ ہے۔ بلوچستان اپنے وسیع و عریض ساحل سمندر اور قدرتی وسائل و معدنی ذخائر کی بنا پر بھی ایک اہم سر زمین ہے ان خطوط پر دیکھا جائے تو بلوچ وطن کو تو ترقی و خوشحالی کے دائمی نقش و پیکر اور معراج سے آگے مواصلاتی ساخت کے اعتبار سے زیب و زینت اور دلکشی میں روئے زمین پر شداد کی جنت نْما پْر تکلف باغ سے دوبالا اور آرام و آسائش کا منبع ہونے کے سبب جنت نظیر ہو جانا چاہیئے تھا۔
اس اثناء میں بلوچستان کے ہر بلوچ فرزند کو جاہ و حشمت اور امارت میں عرب شیخوں سے صد سری آگے آباد (دولت مند) ہو جانا چاہیئے تھا۔
بادی النظر میں تصور کی اِس سحر انگیزی اور معروضی بنیاد پر استوار گْمان کے بالکل برخلاف حقیقی اور مادی زندگی میں بلوچ فرزند آخر دو وقت کی روٹی کے لیے کیوں ا س قدر بدبخت ، بدحال اور دربدر ہیں یا بلوچستان کی پسماندگی کے اسباب و عوامل کیا ہیں اور اِن اسباب وعوامل کے ذمہ دار کون ہیں؟
اس قسم کے لامتناہی سوالوں اور سلسلہِ ہائے اعمال کے متعلق جہاندیدہ اور سیانے لوگ کہتے ہیں کہ انسانوں کے پاس طاقت کے ساتھ ساتھ اگر ہمّت اور ایکتا نہ ہو تو وہ دولت اور حسن ( خوبصورتی) کی حفاظت نہیں کر سکتے،
کمزور اور ناتواں ہونے کے سبب ان کی دولت ہوشیار اور طاقتور لوگوں کے عیش و عشرت کا ساماں بننے کا موجب بنے گا۔
پھر یہ بھی جزو لاینفک کے طور پر مذکورہ بالا منطقی سچائی کے ساتھ مربوط ہے کہ حالیہ دور کی پْر پیچ ضروریات کے تحت سماجی و سائنسی علوم اور فنون پر مہارت حاصل کرنا ضروری ہے
تاکہ وقت کی پیچیدگیوں اور حالات کی نزاکت کو سمجھ کر اْن کے ساتھ ہم گام ہو کر چلنا ممکن رہے۔بلوچ قوم اور بلوچستان کو درپیش پیچیدہ بلکہ لاینحل مسائل اور مشکلات کو اگر کوئی اِس تناظر میں تول کر دیکھے تو وہ بآسانی یہ محسوس کر تے ہوئے اِس منطقی نتیجے تک پہنچ سکتا ہے کہ بلوچستان میں بلوچ قوم کے پاس اس وقت اگر چہ کئی نامدار قائدین اور سیاسی پارٹیاں موجود ہیں جو قوم پرستی کے نام پر سیاست کر رہے ہیں مگر بلوچ قوم اور بلوچستان کو درپیش مسائل کے حل کی خاطر وہ متحد ہو کر خلوص نیت کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کرنے کے لیے ہرگزآمادہ نہیں ہیں۔
اتحاد و یگانگت پر نظریں مرکوز کر کے ایک ساتھ چلنے کے برعکس تمام بلوچ پارٹیاں نہ صرف منتشر ہیں بلکہ ان کے درمیان دوریاں ،
رنجشیں اور بے سروپا قسم کی اختلافات موجود ہیں اسکے ساتھ ہی وہ ایک دوسرے پر مقتدرہ قوتوں کے ساتھ مل کر سازشیں کرنے کی الزامات بھی عائد کرتے رہے ہیں ۔
اب یہ سوال کہ کون کس حد تک مقتدرہ کے قریب ہے ؟
اس کے جواب سے موجودہ دور میں ہر باشعور شخص بخوبی واقف ہے اس لیئے اِس سوال کو چھیڑنا سراسر فضول ہے اس تناظر میں ہر ایک پارٹی کے قائد کی خواہش اور کوشش ہے کہ وہ مقتدرہ کے منظورِ نظر کسی بڑی پارٹی اور ریاستی سطح پر کسی نامور قائد کے ساتھ استوار وفاداری دکھا کر اْن سے ذاتی اور سیاسی روابط بڑھا ئے تاکہ وہ اْس کے کاندھے پر سوار ہوکر مقتدرہ کے مزید نزدیک ہوسکے۔
اب تو خیر باپ بھی بلوچستان کی ایک پارٹی ہے جن کے عہدیداران نہ صرف اِس وقت حکومت کے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں بلکہ قوی امکان ہے کہ آئندہ انتخابات کے بعد بھی بلوچستان اور مرکزی حکومتوں میں باپ دوبارہ اہم ترین عہدوں پر شراکت دار کے طور پر شامل رہے گی۔ یہاں پر یہ بھی ایک دلچسپ امر ہے کہ باپ کے علاوہ ملک کی دو تین بڑی پارٹیوں کو اقتدار میں لانے یا شراکت داری کی خاطرمقتدرہ موسمی پرندوں کی طرح اِن کو انتخابات کے دوران جبری طور پر بلوچستان میں لا کر کامیابی دلاتی ہے ان موسمی پارٹیوں کے علاوہ (جو اِس ملک میں اقتدار کے جدّی پشتی وارثوں یا کہنے دیجیئے کہ داداؤں کے سہارے زورآور ہیں) دیگر تمام بلوچ پارٹیاں اور قائدین جو قوم پرستی کے دعویدار ہیں دراصل ایک ہی فکری اساس کے پیداوار ہیں اور سب کے سب سیاست کے میدانِ عمل میں اعلانیہ طور پر بلوچ عوام کے سامنے خود کو میر غوث بخش بیزنجو ، نواب اکبر خان بگٹی ، سردار عطا اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری کے نہ صرف سیاسی وارث پیش کرتے اور دکھاتے ہیں
بلکہ ہزار ناز کے ساتھ ماضی کے ان سْلجھے ہوئے قدآور اور سنگین بلوچ قائدین اور سیاستدانوں کو( جو اپنے مخصوص دائرہِ کار سے باہر انتخابات، سیاست، معیشت اور کاروبار سمیت دیگر میدانوں میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار اور مداخلت کاریوں کے حوالے سے ملک بھر میں ثابت قدم،
شدیدترین مخالف اور حرف گیر رہے ہیں) اپنا رہبر اور پیشرو قرار دیتے ہیں اور اس پہ طرہ یہ کہ ہمارے سامنے مختلف ادوار کے سیاسی مدوجذر کے دوران یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی پارٹی میں یکجاہ اور ہمکار رہے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ موجودہ دور کی ضروریات اور تقاضے کیا ہیں؟
ان قائدین کو سمجھانے کی ہر گز ضرورت نہیں ہے یہ دْور بیٹھے بیشمار تماشائیوں سے بہتر اور زیادہ جاننے کے ساتھ ساتھ تجربہ بھی رکھتے ہیں مگر فارسی زبان میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ ” ماہ نِندے ماہ باشد، دیگ نِندے سیاہ باشد ” ممکن ہے کہ اس ضرب المثل کے مصداق دماغ کْل رکھنے والے ہمارے تمام نایاب صفت قائدین علم و آگہی اور تجربہ رکھنے کے باوجود وقت کی تبدیلیوں سمیت بعض ذاتی مجبوریوں اور مصلحتوں کے تحت یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ بازار اور لْوٹ کی کلچر پر قائم ملک کے مروجہ سیاسی ماحول اور رواج سے متاثر ہو چکے ہوں اور ان کے نقشِ پا پر چلنے کی سعی کررہے ہوں ۔
بہرحال کسی شخصیت کی ذات اور ذاتی کردار پر تنقید اور حرف گیری بالکل بھی مناسب طرزِ عمل نہیں ہے،
ہم قطعاّ اس کے حق میں ہیں اور نہ ہی اس قسم کے طرز عمل کو پسند کرتے ہیں مگر یہاں پر سوال یہ ہے کہ بڑی بڑی نامدار شخصیات کہ جن کو ایک زمانے تک ہمارے سامنے ہی لوگ ذاتی مفادات سے بالاتر درویش صفت قائدین کے ساتھ ساتھ قومی اور اجتماعی مقاصد کے ترجمان اور نگہبان کہتے اور سمجھتے رہے ہیں ،
پر صد افسوس کہ موجودہ دور میں خدائی فرشتوں کی طرح پاک دامان اِن شخصیات پر لوگ بڑی آسانی کے ساتھ ذاتی اور خاندانی یا اگر اس سے زیادہ لحاظ سے کام لیں تو اْن کو کسی مخصوص طبقہ اور اْنکے ہرکاروں کے مفادات کا محافظ کہیں اور قوم دشمن جیسے القابات سے نوازیں تو یہ دلائل باوزن اور باحق ہونگی ۔
پھر اس دلیل کو وسعت دے کر اس کا اطلاق عوام کے منتخب نمائندوں ، سیاست کے میدان میں مصروف عمل سیاسی قائدین کے کردار و اعمال کے ساتھ جوڑ کر اگر دیکھا جائے تو سیاست اور عوام کی نمائندگی کے اعمال چونکہ اجتماعی فرائضِ منصبی اور اشتراکی اعمال ہوتے ہیں جبکہ کسی سیاستدان اور عوام کے نمائندے کا کردار و عمل چونکہ اجتماعی قومی جمہوری مقاصد اور ایک قوم کی شناخت اور مجموعی مفادات کو متاثر کر سکتا ہے اس لیئے میدان سیاست میں مصروف عمل کسی شخصیت پر تنقید اور حرف گیری نہ ہو تو یہ عملاً ایک ممکن خواہش نہیں ہے اور اگر اس سے بھی کوئی بچنا چاہے تو ان کو چاہیئے کہ وہ سیاست اور عوام کی نمائندگی سے دست کش ہو کر ایک طرف بیٹھ جائے پھر لوگ انکے متعلق کچھ نہیں کہیں گے۔
اس پْرپیچ سوال کی ابعاد اور جہات پر کوئی جتنا زیادہ سوچے اْتنے ہی نئے زاویے سامنے آنے کے امکانات موجود ہونگے اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جائے گا لہٰذا کج بحثی کو ایک طرف رکھ کر قوم پرستی کے دعویدار بلوچ قیادت اور پارٹیوں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ پنجاب اور سندہ کے قائدین اور پارٹیوں کو ترجیح دیکر اْن کے ساتھ قربت پیدا کر کے اشتراک عمل کی راہ اپنانے کی بجائے بلوچ قائدین اور پارٹیوں کے ساتھ ہی اشتراک عمل کی راہ اپنا ئیں ،
خود کو بلوچ عوام کے اندر منظم اور متحرک کر یں، بلوچ قوم کو درپیش مسائل اور مشکلات کے حل کو اپنی سیاست کا محور بنا ئیں تو عوام خود ہی ان کو اپنی سر آنکھوں پر بٹھا دیں گے، ورنہ جو کچھ وہ اس وقت اپنے متعلق سن رہے ہیں، اس سے زیادہ کے لیے خود کو تیار رکھیں۔ ہم حالِ دل سنائیں گے سْنیئے کہ نہ سْنیئے