مانا کہ قومی اسمبلی میں بلوچ نمائندوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے ۔
،اِس کلمیاتی مظہر کو وسعت دیکر ہم اِس نکتے کے ساتھ جوڑ دینے کی کوشش کریں گے۔
کہ کے پی کے اور سندھ کے تمام ممبران کو بلوچ نمائندوں کے ساتھ ملا کر یکجا کر دیا جائے تو بھی ان کی مجموعی تعداد پنجاب کے نمائندوں سے قلیل رہے گی کیونکہ پنجاب کی آبادی ملک کے دیگر تین صوبوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے مگر یہاں پر یہ سوال ایک بنیادی اور توجہ طلب صورت اختیار کر کے سر اْٹھاتی ہے ۔
کہ آبادی کی بنیاد پر نمائندوں کی تعداد اور کارکردگی کو زیر بحث لانا گو کہ مناسب ہے مگر اس سے بھی اہم ترین سوال یہ ہے پاکستان میں آبادی کی بنیاد پر عوام کے منتخب نمائندوں کی کمی اور بیشی نے کب ایک اہم مسئلہ بنکر فیصلہ اور پالیسی سازی کی میدان میں ملک کے حکمرانوں اور مقتدرہ کو پریشان کر رکھا ہے کہ اب اِس حْجّت پر پنجاب کی بالادستی خطرات سے دوچار رہے؟
پنجاب سے تعلق رکھنے والے آبادی کے ماہر ِدماغ کارساز سنجیدہ اور نازک ادوار میں بھی آبادی کے سوال کے حل کی خاطر نادر نسخے اور نایاب فارمولے تلاش کرتے رہے ہیں ۔ہم سب جانتے ہیں کہ متحدہ پاکستان کے دور میں جبکہ مذکورہ بالا قومی اکائیوں کی طرح پنجاب کی آبادی بنگال سے نسبتاً کم تھی تو پنجاب کے اِن ماہرین نے ایک خاص نسخے کو بروئے کار لا کر بلوچستان، کے پی کے اور سندھ کو پنجاب کے ساتھ ضم کر کے پاکستان میں ون یونٹ قائم کر دیا۔
اور جب اس حربے سے بھی بنگال کی آبادی متاثر نہ ہو سکی تو اس کے ساتھ ایک اور فارمولا تراش کر ملک کی انتظامی بندوبست کو دو حصوں میں تبدیل کر کے مغربی اور مشرقی پاکستان کے اکائیوں میں پیریٹی قائم کر دی گئی۔ آبادی کے متعلق پنجاب کے اِن ماہر کارسازوں نے اْس کردار کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھا کہ بنگال ہی وہ واحد اکائی تھی جہاں کی انتخابی کامیابی نے استصوابِ رائے کی شکل میں قیام پاکستان کے لیے جواز پیدا کیاتھا۔
یہاں پر مدعا یہ کہ حکمران کِیمیا گروں کے لیے مقدار کے سوال کو ہیر پھیر کرنا کونسی بڑی بات ہے ۔
کہ جسے ہمارے نمائندگان سنجیدگی کے ساتھ لے کر ہلکان رہیں۔
اس کے برعکس اگر دْرست نگاہی کے ساتھ دیکھا جائے تو بلوچ عوام کے منتخب نمائندوں کی جانب سے دراصل یہ ایک قسم کی بہانہ بازی اور قومی فرائض کی انجام دہی سے غفلت برتنے کی ایک کاوش ضرور ہے۔ ہمیں علم ہے کہ قانونی اور آئینی بنیادوں پر اگر دیکھا جائے۔
تو قانون سازی کے میدان میں تعداد کو نظرانداز کر دینا ممکن نہیں ہے مگر پھر اس کے ساتھ ہی یہ سوال سر اْٹھاتا ہے کہ اِس ملک میں آئین اور قانون کے تقدس اور بندشوں کے ساتھ کس کو آشنائی ہے؟ ملک کے سیاستدان ہوں یا پھر مقتدرہ کے لوگ، کس حد تک آئین اور قانون کی پاسداری کر کے آئین و قانون کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں؟
کوئی اگر اس پر یقین رکھے تو سمجھ لیجیئے کہ وہ دن کے اْجالے میں سورج تلے چراغ جلا کر راستوں کی تلاش کی کوششوں میں مگن ہے۔ کیا اِس ملک میں لوگ مقتدرہ کی زبان سے اعلانیہ طور پر نہیں سنتے رہے ہیں ۔
کہ آئین اور قانون کاغذ کے ٹکڑے ہیں جسے وہ جب چاہیں لپیٹ سکتے ہیں۔
اس صورت حال میں اگر کوئی مقداری برتری کاسوال چھیڑ دے تو تنہائی میں بلاشْبہ پاگلوں کی طرح نہ صرف ہنسی چھوٹ جاتی ہے بلکہ من کرتا ہے کہ انسان خیالوں میں گْم ہو کر اپنے ہی سر پر پنچ مارتا رہے کہ ہم کہاں پر ، کس سے، کیا مانگ رہے ہیں ؟ وبالِ جان اور سوہانِ روح سے بدتر اِس اْلجھن کو سْلجھانا دراصل اس قدر پیچیدہ بھی نہیں ہے۔
کہ جن کو عوام کے منتخب نمائندے ایسا کوہِ گراں سمجھ بیٹھے ہیں جو اْٹھائے نہ اْٹھے اور بٹھائے نہ بنے۔ مثلاّ اس وقت قومی اسمبلی میں اگر بلوچستان کے نمائندے صرف 20 جبکہ پنجاب کے 174 یا اس سے زیادہ ہیں تو ان دونوں اقوام یا اکائیوں میں آبادی کی بنیاد پر انکے نمائندوں کی تعداد میں اگرچہ واضح فرق موجود ہے۔
مگر اس تعداد کو اکائی کی نمائندگی کے حقیقی اور مادی وزن کی بنیاد پر جوڑ کر اگر دیکھا جائے ۔
تو تعداد کے فرق کے باوجود منتخب نمائندے دو مختلف اقوام اور اکائیوں کی چونکہ نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں اس لیے تعداد کی کمی اور بیشی کے باوجود انکی جانب سے دونوں اکائیوں کی نمائندگی کی وزن کو یکساں اور برابر بنیادوں پر دیکھا ، پرکھا اور تولا جانا چاہیے۔۔
اس سے مراد یہی ہے کہ نمائندوں کی تعداد میں کمی ایک قوم یا اکائی کی متحدہ اور مشترکہ آواز اور احتجاج کو ہر گز کم یا متاثر نہیں کرتی بظاہر اس غیر متعلق سوال اور لاحاصل بحث سے حاصلِ مقصود یہی ہے کہ کمزوری تعداد کی کمی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ خود بلوچ نمائندوں ، قومی قیادت اور پارٹیوں کے اندر موجود ہے جو بلوچستان اور بلوچ قوم کے مسائل اور مشکلات پر یکجا ہو کر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیتے ہوئے راست اقدامات اور آواز اْٹھانے سے دراصل اس لیے گریزاں ہیں۔
کہ یہ لوگ ملک کے مقتدرہ کے ساتھ اعتماد پر قائم اپنے استوار روابط کو بگاڑنا نہیں چاہتے ۔ اس سلسلے میں اگرچہ بہت کچھ لکھنے اور کہنے کی گنجائش موجود ہے مگر سر دست ہم بلوچ قیادت اور پارٹیوں سے درخواست کرنا پسند کریں گے کہ وہ ملک کی سیاست میں فقط گزشتہ پانچ/چھ سالہ دور پر محیط جمہوری سیاست کی سفر ، تجربات اور صف بندیوں کو دماغ میں رکھ کر اْن پر عوام کے ردعمل کو دیکھ لیں۔
تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ اس دوران عمران خان سمیت ملک کی دیگر تمام پارٹیاں جو پی ڈی ایم کی پلیٹ فارم پر اتحادی جماعتوں کی شکل میں اسٹیبلشمنٹ کے سہارے ملک پر حکومت کرتی رہی ہیں وہ نہ صرف حکومت کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
بلکہ اِس دوران ہونے والے تمام تر ضمنی انتخابات میں ناکامیوں سے دوچار ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف سرویز میں بھی عوام نے اْن پارٹیوں ، اتحادیوں اور قائدین کے ساتھ برہمی ظاہر کر کے ان سب کی کارکردگی کو مسترد کر دیا ہے۔ بلوچستان میں بھی اس دوران جو پارٹیاں حکومت میں شامل رہی ہیں ۔
وہ پارٹیاں ماضی کے مقابلے میں اس وقت کافی حد تک کمزور ہیں۔سرویز کے علاوہ ضمنی انتخابات میں کامیابیوں اور ناکامیوں کے نتائج کو سامنے رکھ کر عوام کی سوچ ، پسند و ناپسند اور رائے کو دیکھا اور پرکھا جائے تو اس کے دو ہی نتائج اور آثار سامنے آتے ہیں اوّل یہ عوام چاہتی ہے کہ مقتدرہ سیاست سے الگ تھلگ رہ کر فقط اپنی ذمہ داریوں تک خود کو محدود رکھے اور دوسری وجہ مہنگائی کا بارِ گراں ہے۔
اور حالیہ مہنگائی کے ناقابل برداشت بوجھ میں اضافے کی ابتدا بھی عمران خان کے حکومت کی ناکام معاشی اور سیاسی پالیسیوں کے ساتھ ہوئی جو شہباز شریف کے دور حکومت میں بڑھ کر بام عروج تک پہنچ گئی۔ اب اس صورتحال کے محرکات کے متعلق صحافی اور دانشور چاہے قلم اور زبان پر تالہ لگا کر خاموش رہیں۔
اور کچھ بھی نہ کہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ عمران خان کو خاموش کرنا کس کے بس کی بات ہے اور عمران خان تو اعلانیہ طور پر اعتراف کرتے ہیں کہ انکی حکومت اپنے پورے دور میں مقتدرہ کے فیصلوں ، اشاروں اور ہدایات پر چلتی رہی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں بلوچ نمائندے اور قائدین وہ سب کچھ نہیں کر سکتے جو کچھ عمران خان اپنی حکومت کی برخاستگی کے بعد جیل سے پہلے یا جیل میں رہتے ہوئے کر رہے ہیں یا شہباز اور نوازشریف کر سکتے ہیں کیونکہ پنجاب کا ڈومیسائل رکھنے کے سبب ان قائدین کو خصوصی رعایات حاصل ہیں۔
مگر بلوچستان اور بلوچ قوم کو درپیش مسائل پر بلوچ نمائندے اور قائدین قانون کے حدود اور دائرہِ کار میں رہتے ہوئے اپنی بساط کے مطابق جو کچھ کر سکتے ہیں وہی تو کریں۔ بلوچ قائدین اگر آئینی و قانونی بنیادوں پر مسائل اور مشکلات پر سنجیدگی کے ساتھ جدوجہد کرنا چاہیں تو سیاست اور سیاسی جدوجہد میں حرارت اور تحریک پیدا کرنے کے لیے جتنا مواد ( ایشوز) بلوچستان میں موجود ہے ۔
یقین جانیئے کہ پاکستان کے کسی بھی اکائی میں موجود نہیں ہیں۔ ہم بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ بلوچ قیادت اور پارٹیاں اپنی سیاست کو اگر عوام کے اند مضبوط بنیادوں پر استوار کر یں ، اپنے اداروں اور کارکنان کو منظم کر کے متحرک کریں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہر بار بدیسی پارٹیاں انتخابات کے وقت بوریا بستر باندھ کر کامیابی حاصل کرنے کے لیے بلوچستان کا رخ کر یں یا بلوچ عوام اْن بدیسی پارٹیوں کے نمائندوں ( خواہ بلوچ ہی کیوں نہ ہوں ) کو کامیابی دلا کر بلوچ پارٹیوں، قائدین اور انکے نمائندوں کو شکست سے دوچار کریں۔
البتہ اس سلسلہِ عمل کے تدارک کی خاطر بلوچ قیادت اور پارٹیوں کو اپنے مذکورہ بالا طرز عمل ، اداؤں اور کمزوریوں پر غور کر کے ان کو دْور کر دینے کی اشدضرورت ہے۔