|

وقتِ اشاعت :   October 22 – 2023

صوبہ پنجاب کی موجودہ آبادی بارہ کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے۔ یہ دنیا میں دس کروڑ آبادی رکھنے والے آٹھ ممالک سے زیادہ نفوس پرمشتمل ہے۔ پنجاب کی آبادی کو مزید صوبوں میں تقسیم کرنا ناگزیر ہے۔ یہ سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامیہ بنیادوں پر ضروری ہے تاکہ موجودہ صوبہ پنجاب کے پسماندہ علاقوں کی پسماندگی دور ہوسکے۔ پنجاب کی تقسیم ملکی مفاد میں ہے۔ موجودہ صوبہ پنجاب میں الگ الگ زبان، ثقافت اور نسل کے لوگ آباد ہیں۔ ان کی بھی پنجابیوں کی طرح ایک الگ شناخت ہے۔ جو ایک تاریخی حقیقت ہے۔
تقسیم برصغیر کے بعد آدھا پنجاب انڈیا کے پاس چلا گیا جبکہ آدھا پنجاب پاکستان کے حصے میں آیا جو اصل پاکستانی پنجاب موجودہ وسطی پنجاب تک محدود تھا۔ جب پنجاب کو صوبہ کا درجہ دیا گیا تو دیگر غیر پنجابی علاقوں کو بھی پنجاب میں شامل کردیا گیا۔ ان علاقوں کے الحاق کے خلاف بعض علاقوں میں سخت احتجاج بھی کیا گیا جس میں بہاولپور اور ڈیرہ جات کے لوگ شامل تھے۔ وہ پنجاب میں شامل ہونا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن انہیں زور و زبردستی پنجاب میں ضم کیا گیا۔ آج کا پنجاب بہاولپور، ملتان سے لیکر ڈیرہ جات سے ہوتا ہوا بالائی پنجاب (پوٹھوہار) تک پھیلا ہوا ہے۔ جو مختلف زبانیں بولنے والی اقوام کی سرزمین ہیں۔ جہاں سرائیکی، بلوچی اور پوٹھوہاری بولنے والوں کی کثیرتعداد آباد ہے۔ اور وہ آج بھی اپنے اپنے علاقوں کوالگ الگ صوبے بنانے کی تحریک چلارہے ہیں۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد انڈیا نے اپنے پنجاب کو پانچ (یونٹوں) صوبوں میں تقسیم کر دیا جن میں پنجاب، دہلی، ہریانہ، اتراکھنڈ اورچندی گڑھ صوبے شامل ہیں لیکن پاکستان نے اس کے برعکس کیا۔ جو پنجاب کے علاقے نہیں تھے ان کو زبردستی پنجاب میں شامل کردیا گیا۔ آج بھی سرائیکی، بلوچی اور پوٹھوہاری بولنے والے پنجابی بولنے والوں سے الگ شناخت مانگتے ہیں کیونکہ وہ ایک الگ تاریخ، ثقافت، زبان اور سرزمین رکھتے ہیں، ان کی اپنی ریاستیں تھیں جو کبھی بھی پنجاب کا حصہ نہیں تھے۔ وہ آج بھی چاہتے ہیں ان کی سرزمین پر ان کی شناخت ہو۔ اور وہ اپنی شناخت پر فخر بھی کرتے ہیں۔
بہاولپور اپنی ایک تاریخ اور الگ شناخت رکھتا ہے۔ وہ پاکستان کا حصہ نہیں تھا۔ وہ ایک الگ ریاست تھا۔ ریاست بہاولپور کے حکمران نواب صادق محمد خان خامس نے پاکستان کی حکومت سے ایک الگ صوبہ کی شرط پر پاکستان میں الحاق کیا تھا۔ اس شرط کے نتیجے میں بہاولپور کو صوبے کا درجہ مل گیا تھا۔ بہاولپور تین سال تک الگ صوبہ رہا۔ باقی صوبوں کی طرح بہاولپور صوبے کا بھی بجٹ پیش ہوتا تھا۔ 1951 اور 1952 میں بہاولپور کا بجٹ اس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخواہ) کے برابر تھا۔ 1955 میں وزیرِ اعظم چوہدری محمد علی بوگرہ کی حکومت نے مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو ملا کر ایک یونٹ یعنی ون یونٹ اور مشرقی پاکستان کو علیحدہ یونٹ بنا دیا تھا۔ بہاولپورکو بھی باقی پاکستان کے صوبوں کی طرح ون یونٹ میں شامل کردیا گیا۔1969 میں جب اْس وقت کے آمر جنرل یحیٰی خان نے ون یونٹ ختم کرنے کا اعلان کیا تو بہاولپور کے لوگوں کو امید تھی کہ وہ بھی علیحدہ یونٹ کے طور پر بحال ہو جائے گا، مگرایسا نہ ہوا تو یہاں کے لوگوں نے ایک زبردست تحریک چلائی جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں جا ری ہے۔
ملتان آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ہے۔ یہاں کی زبان پنجابی نہیں بلکہ سرائیکی ہے۔ سرائیکی ایک الگ قوم ہے جس کی جداگانہ تاریخ، ثقافت، زبان، سرزمین اور معاشی منڈی ہے۔
اسی طرح ڈیرہ جات بلوچ آبادی ہے اور یہ ایک تاریخی بلوچ سرزمین ہے۔ جہاں مختلف بلوچ ریاستیں قائم تھیں۔ ڈیرہ جات کو ون یونٹ کے خاتمے کے بعدبلوچستان کے بجائے پنجاب میں شامل کردیا گیا جس کی وجہ سے ڈیرہ جات کے میدانی علاقوں میں آباد بلوچ اپنی زبان سے ناآشنا ہورہے ہیں۔ ان کی مادری زبان پر سرائیکی اور پنجابی زبان کا غلبہ ہے۔ڈیرہ جات کی آبادی جو کوہ سلیمان کے دامن میں واقع ہے۔ وہ آج بھی بلوچی بولتے ہیں۔ انہوں نے بلوچ کلچر اور ثقافت کا دامن نہیں چھوڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی قومی شناخت بلوچ ہونا ہے۔ان کی ہمدردیاں اور مطالبہ یہ ہے کہ وہ بلوچستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
ڈیرہ جات کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ یہاں دودائی بلوچوں کی ریاست قائم تھی۔ دودائی بلوچ کا شمار لاشار میں ہوتا ہے۔ میر حاجی خان بلوچ نے اس سلطنت کا نام ڈیرہ جات سے بدل کر اپنے فرزندوں کے نام پر مختلف ریاستیں قائم کردیں۔ انہوں نے اپنے فرزند غازی خان کو ڈیرہ غازی خان،اسماعیل خان کو ڈیرہ اسماعیل خان،فتح خان کو ڈیرہ فتح خان(تونسہ شریف) اور چھٹہ خان کو کوٹ چھٹہ کے نام سے منسوب کر کے تقسیم کر دیا۔
ڈیرہ جات بھی بلوچ کنفیڈریشن کا حصہ تھا۔ جس کا مرکز ریاست قلات (بلوچستان) تھا۔ بلوچ کنفیڈریشن کا سربراہ خان آف قلات خود تھا۔ تاریخی طور پر خان آف قلات کے زیرسایہ تمام بلوچ ریاستیں آتی تھیں۔ جن میں ریاست مکران، ریاست خاران، ریاست لسبیلہ، ریاست حیدرآباد، ریاست میرپور خاص، ریاست خیرپور، ریاست ٹنڈو محمد خان، ریاست چانڈکا (موجودہ لاڑکانہ)، خوشاب اور ڈیرہ جات کی ریاستیں شامل تھیں۔ وادی سندھ اور پنجاب کے بلوچ آبادیوں کو پنجاب میں سکھ سلطنت کے بانی مہاراجا رنجیت سنگھ سے خطرہ لاحق ہوتا تھا۔ سکھ فوج، بلوچ علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتی تھی۔ اور خان آف قلات ان بلوچ ریاستوں کی دفاع کے لئے ہروقت تیار رہتا تھا۔ جب خوشاب میں قائم سردارجعفرخان بلوچ کی ریاست پر رنجیت سنگھ نے رات کے اندھیرے میں اچانک حملہ کردیا۔ اس جنگ میں پنجابی حکمران جنگی روایات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ کیونکہ جنگ میں پیشگی اطلاع دی جاتی ہے۔ تاہم اس حملے کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ تو خان آف قلات کی کمک بروقت نہیں پہنچ سکی تھی۔ جبکہ موجودہ میانوالی میں آباد اعوان قبیلے بھی بلوچوں کے اتحادی تھے۔ واضح رہے کہ اعوان نَسلاً عرب ہیں۔ اسی طرح پوٹھوہار کے عباسی اور راجپوت بھی بلوچوں کے اتحادی تھے۔ عباسی بھی عرب نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ رنجیت سنگھ سے اعوان، عباسی اور راجپوت بھی نالاں تھے۔ واضح رہے کہ پنجابی ایک جاٹ نسل ہے۔ پنجاب میں یہ جٹ مشہور ہیں۔
جب خوشاب حملے میں خوشاب کے سربراہ سردار جعفرخان بلوچ کوشکست ہوجاتی ہے۔ تو اس فتح کا پنجابی پندرہ دن جشن مناتے ہیں۔ سردار جعفر خان بلوچ کی تلوار آج بھی پنجاب میوزیم میں رکھی ہوئی ہے۔ وہ ایک بہادر جنگجو سردار کہلاتا تھا۔
آج بھی پنجاب میں آباد، اعوان، عباسی، راجپوت اور بلوچ کا اتحاد و یکجہتی قائم و دائم ہے۔ یہ آپس میں شادی بیاہ بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح آج بھی بلوچستان اور سندھ سے تعلق رکھنے والے بلوچ گھرانے اعوان، عباسی اور راجپوتوں سے شادی بیاہ کی صورت میں رشتہ رکھتے ہیں۔ جبکہ جاٹ (پنجابی) سے لڑکی لینا اور دینے کا رواج نہیں ہے۔ بلکہ اس کو عیب سمجھا جاتا ہے۔
جب انگریز اس خطے میں آئے۔ انہوں نے ڈیرہ جات پر قبضہ کرلیا۔ مگر ڈیرہ جات کے کوہ سلیمان بیلٹ کے بلوچ قبائل نے سردار کوڑا خان قیصرانی،سردار مصری خان کھیتران،سردار قادر بشک مسوری اور میر مہر اللہ خان مری کی قیادت میں انگریزوں سے جنگ جاری رکھی۔ جس میں بے شمار بلوچ شہید ہوئے۔ بلآخر1887کو انگریز ڈیرہ جات پر قبضہ کرلیتا ہے۔
ون یونٹ کے خاتمے کے بعد جب صوبوں کی سرحدی حد بندی ہورہی تھی تو موجودہ پنجاب میں تمام بلوچ ریاستوں کو زبردستی شامل کردیا گیا۔ جبکہ کچھ علاقے موجودہ خیبرپختونخوا میں شامل کردیے گئے۔ جن میں ڈیرہ اسماعیل خان سرفہرست ہے جس پر بلوچوں نے سخت احتجاج کیا اور کہا کہ ان کا پنجابیوں سے نہ زبان کا رشتہ ہے اور نہ ثقافت کا رشتہ ہے۔ لہذا بلوچ سرزمین کو صوبہ بلوچستان میں شامل کیا جائے۔ مگر پنجابی بالادست قوم نے طاقت کا مظاہرہ کیا۔ پورے ملک میں ہنوز پنجابی بالادستی جاری ہے۔
بالائی پنجاب جہاں پوٹھوہاری زبان بولی جاتی ہے۔ یہ زبان راولپنڈی، گوجر خان، کلرسیداں، کہوٹہ، کوٹلی ستیاں، مری، اسلام آباد، جہلم سمیت دیگر علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ یہ پنجابی سے الگ شناخت رکھتے ہیں۔ وہ ایک جداگانہ تاریخ، ثقافت، زبان اور سرزمین رکھتے ہیں۔ اور اپنی قوم پر فخر بھی کرتے ہیں۔ یہاں عباسی اور راجپوتوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔
پنجاب میں مزید صوبے نہ بنانے کی دوسری بڑی وجہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا پر اپنی بالادستی بھی قائم رکھنا ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں تینوں صوبوں کے ارکان سے پنجاب کے ارکان کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ تینوں صوبے مل کر بھی قومی اسمبلی سے اپنے صوبے کے مفاد کے لئے قانون پاس نہیں کراسکتے جبکہ پنجاب کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے قومی اسمبلی سے قانون پاس کرانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ پنجابی (جاٹ) کبھی بھی موجودہ صوبہ پنجاب کی تقسیم قبول نہیں کریگا۔ وہ اپنی بالادستی نہ صرف صوبہ پنجاب بلکہ پورے ملک پر قائم رکھنا چاہتا ہے۔ پنجابی ایک بالادست قوم بن چکی ہے۔ چھوٹے صوبوں کے ساحل اور وسائل پر ان کا قبضہ ہے۔ ان کا بس چلتا تو گوادر پورٹ اور کراچی پورٹ کو پنجاب میں منتقل کردیتے۔ تاہم پنجاب میں گیارہ ڈرائی پورٹس قائم کئے گئے ہیں۔ جہاں کراچی پورٹ سے سیدھا مال پنجاب منتقل کیا جاتا ہے۔ مجال ہے کہ پنجاب کے مال کو کراچی پورٹ پر کھولا جائے۔کسی کو یہ جرات بھی نہیں ہوگی۔
اسی طرح کراچی کو ملک کا دارالحکومت ہونے سے محروم کردیا گیا اور ملک کا دارالحکومت صوبہ پنجاب میں منتقل کردیا گیا۔ صوبہ پنجاب میں ایک نیا شہر بسایا گیا جس کا نام اسلام آباد رکھ دیا گیا۔ اور اسلام آباد کو ملک کا دارالحکومت قراردے دیا گیا۔ تاکہ ملک میں پنجاب کی بالادستی اور مضبوط ہوسکے۔
آج کل جنوبی پنجاب کو ایک الگ صوبے کا درجہ دینے کا معاملہ چل رہا ہے۔ موجودہ صوبہ پنجاب کو ایک حصے میں نہیں بلکہ مزید چار حصوں میں بانٹا جائے۔ کیونکہ بہاولپور، ملتان، ڈیرہ جات اور بالائی پنجاب (پوٹھوہارایریا)میں الگ الگ زبان اور ثقافت کے لوگ آباد ہیں۔ اور ان کی نسلیں بھی الگ الگ اقوام سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ تقسیم نسلی بنیادوں کے ساتھ ساتھ انتظامی بنیادوں پر درست فیصلہ ہوگا۔ کیونکہ بہاولپور، ملتان اور ڈیرہ جات پنجاب کے لاہور اور دیگر شہروں سے کافی پسماندہ علاقے ہیں۔ لاہور میں اورنج لائن چل رہی ہے۔ جبکہ بہاولپور اور ڈیرہ جات میں 1965 کی بسیں چل رہی ہیں۔ وسطی پنجاب میں 26 سے زائد ٹیچنگ میڈیکل کالجز سمیت اسپتال قائم ہیں۔ جبکہ جنوبی پنجاب میں صرف تین ٹیچنگ میڈیکل کالجز ہیں۔ اسی طرح وسطی پنجاب میں بے شمار یونیورسٹیز قائم ہیں۔ جبکہ جنوبی پنجاب میں صرف تین یونیورسٹیز ہیں۔ اسی طرح ذرائع آمد رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈیرہ غازی سے چلتن ٹرین چلتی تھی وہ بھی بند کردی گئی۔ ڈیرہ غازی خان میں انڈس ہائی وے سنگل ٹریک پر ہے جس کی وجہ سے بے شمار جانیں ٹریفک حادثات کا شکار ہوجاتی ہیں۔ جبکہ وسطی پنجاب میں موٹروے کا جال بچھادیا گیا ہے۔ جبکہ بہاولپور اور ڈیرہ جات موٹروے سے محروم ہیں۔
اس وقت انڈین پنجاب کی طرح پاکستانی پنجاب کو تقسیم کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ یہ تقسیم ریاست کی مضبوط کی ضمانت دیتی ہے۔ اگر صوبہ بہاولپور، صوبہ ملتان، صوبہ ڈیرہ جات اور صوبہ پوٹھوہارنہیں بنائے گئے تو یہاں کے لوگوں میں بے چینی ایک آگ کی طرح بھڑک اٹھے گی اور جو بھی راستے میں آئیگاسب کو جلاکر رکھ کردیگی۔

2 Responses to “”پنجاب“ چکنا چور”

  1. Mohsin arain

    بغض پنجاب میں کچھ لوگوں کا پشواڑا آج بھی جل رہا ہے جبکہ بہاالپور بھی ریاست تھی خیر پور بھی ریاست تھی لیکن بہاولپور کے درد میں میں اردو میڈیا کو پیچش لگے ہوئے ہیں پنجاب میں صرف سرائیکی پوٹھوہاری نہیں بولی جاتی بلکہ ملتانی ریاستی لاہوری پہاڑی ڈوگری اور چھاچھی بھی بولی جاتی ہیں میرے خیال میں اردو میڈیا کو انہیں بھی الگ زبانیں بنانے کی تحریک چلانی چاہئے ستر سال تک یہی اردوی میڈیا ہمیں نہ سندھی نہ پنجابی نہ بلوچی نہ پٹھان کا درس دینے والوں کو آج پنجاب میں سرائیکی کے موشن لگے ہوئے ہیں جبکہ دنیا جانتی ہے کہ آدھا سندھ سرائیکی ڈھاڈکی اور آدھا اردو بولتا ہے ان کے حقوق کسی کو نظر نہیں آتے

Comments are closed.