|

وقتِ اشاعت :   October 22 – 2023

بلوچستان کے دس شہروں میں 5 ہزار غیرملکیوں کو جعلی پاسپورٹ جاری ہونے کے حوالے سے اہم انکشاف سامنے آیا ہے۔سرکاری ذرائع کے مطابق 98 فیصد پاسپورٹ افغانیوں کو جاری ہوئے، چھ جعلی پاسپورٹ ایرانی شہریوں کو بھی جاری ہوئے۔اس حوالے سے ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن چار سال میں مبینہ جاری غیرملکی شہریوں کو جعلی پاسپورٹ کی تحقیقات کررہے ہیں۔

سرکاری ذرائع کے مطابق تین منظم گروہ کے 45 ایجنٹس نے نادرا اور پاسپورٹ حکام کی مدد سے 12 ہزار غیرملکیوں کو جعلی پاسپورٹ جاری کروائے۔جعلی پاسپورٹ پاکستان کے 30 شہروں سے جاری ہوئے، 11 جعلی پاسپورٹ سعودی عرب سے پروسس ہوئے، کیچ میں 938 جعلی پاسپورٹ بنائے گئے۔ذرائع کے مطابق 852 جعلی پاسپورٹ نوشکی میں پروسس ہوئے، 153 جعلی پاسپورٹ قلعہ عبداللہ میں بنائے گئے، پشاور میں 755 افغان شہریوں کے جعلی پاسپورٹ بنانے کا انکشاف کیا گیا ہے۔630 افغان شہریوں نے بٹاخیل میں جعلی پاسپورٹ حاصل کیے، 329 غیرملکی شہریوں کو کراچی میں جعلی پاسپورٹ دیے گئے۔

ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن نیبھی جعلی پاسپورٹ جاری ہونے کی تصدیق کی ہے۔ڈی جی پاسپورٹ مصطفی جمال قاضی نے کہا ہے کہ خصوصی ٹیم جعلی پاسپورٹ کی تحقیقات کررہی ہے۔نادرا حکام کے مطابق نادرا جعلی پاسپورٹ پربنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔ کمیٹی کی سفارشات پرعمل کیا جائے گا۔جعلی پاسپورٹ کا اسکینڈل معمولی نہیں ہے یہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کا کیس ہے کہ ہمارے یہاں اداروں کے اندر کس طرح سے دونمبری کے کام باآسانی ہوجاتے ہیں یقینا اس میں مبینہ طور پر آفیسران بھی ملوث ہوں گے اور پھراس سے اوپر بھی ایک سسٹم کام ضرور کررہا ہوگا، رشوت لیکر پورے نظام کی دھجیاں بکھیر کر ادارے کو ذاتی مالی فوائد کے لیے استعمال تو کیا گیا ہے مگرجعلی پاسپورٹ بناکر دینا سنگین جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ ملک ایک طرف دہشت گردی،معاشی بدحالی کا شکار ہے اور دوسری جانب غیرملکی باشندوں کو غیر قانونی طریقے سے پاسپورٹ بناکر دیئے جارہے ہیں

جس کی مدد سے وہ کسی بھی ملک کا پاکستان کے نام پرسفر کرسکتے ہیں یقینا دیگر سرکاری دستاویزات بھی بنائے گئے ہوں گے پانچ ہزار کا مطلب پانچ ہزار خاندان اس دونمبری سے فائدہ اٹھارہے ہیں اور اپنے دیگر رشتہ داروں کو بھی اسی طرح کا راستہ دکھایاہوگا، شفاف تحقیقات کی جائے تو یہ غیر معمولی اسکینڈل بن کر سامنے آئے گا اس میں بااثر شخصیات بھی مبینہ طور پر ملوث ہوسکتے ہیں اس کی تحقیقات کے لیے فرض شناس آفیسران اور حساس اداروں کے اہم آفیسران کو شامل کرنا ضروری ہے تاکہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچایاجاسکے ایسا نہ ہو کہ کیس کو ہلکا لیتے ہوئے غیر سنجیدگی کا مظاہر کیاجائے جوبعد میں سردخانے کی نذر ہوجائے۔

پانچ ہزار افراد میں دہشت گردبھی شامل ہوسکتے ہیں اس شبہ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔پاکستانی پاسپورٹ کے ذریعے دونمبری کرکے بیرون ملک جانے والے وہاں بھی جرائم یا پھر سنگین نوعیت کی دہشت گردی میں ملوث ہوئے تو بدنامی ملک کی ہوگی لہٰذا اس کیس کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لیتے ہوئے تحقیقات کی جائے تمام ریکارڈ قبضے میں لیکر معلومات کو خفیہ رکھاجائے تاکہ ملوث ملزمان فرار نہ ہونے پائیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ہمارے اپنے لوگ کس طرح کے سنگین جرائم کرتے ہوئے چند روپوں کی خاطر پورے ادارے کو استعمال کرکے ملک کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں یہ سزا کے مستحق ہیں جو بھی ملوث ہو ان کے ساتھ رعایت نہیں برتنی چاہئے بلکہ انہیں کیفر کردار تک پہنچاکر نشان عبرت بنادیاجائے۔