سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی واپسی پر انگریزی روزنامے دی نیوز نے اپنے اداریئے میں لکھا کہ پنجاب کے فرزند کی واپسی۔ مسلم لیگ ویسے تو پاکستان کی بڑی جماعت ہونے کا دعویدار ہے لیکن کیا حقیقت میں میاں نواز شریف پنجاب کے ہی لیڈر ہیں؟ یہ سوال یقیناً دوبارہ زیر بحث ہے۔
پاکستان کی سیاست ویسے تو گزشتہ پانچ سات سالوں سے پنجاب فوکسڈ ہے ساری جدوجہد اور تبدیلی کا سفر اور کوششیں وہاں تک ہی محدود ہیں ایسا لگتا ہے جیسے باقی ماندہ ملک یا چھوٹے صوبے لاتعلق ہیں یا انہیں لاتعلق کردیا گیا ہے۔
مسلم لیگ ن کی روایتی حریف جماعت پاکستان پیپلز پارٹی تھی جس کی بنیادیں سندھ میں زیادہ مضبوط تھیں لیکن دونوں ایک دوسرے کے لیے دوستانہ اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہیں گزشتہ حکومت میں اتحادی حکومت کا حصہ رہے جس کے بعد کے شکوہ شکایات ابھی تک جاری ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کا خیال اور منصوبہ بندی تھی کہ وہ بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانے میں
کامیاب ہوجائیگی جس کے لیے بلوچستان میں باپ پارٹی تو جنوبی پنجاب میں کچھ شخصیات نے پیپلز پارٹی کا رخ کیا تھا لیکن اس پورے عمل کو ایک دم بریک لگ گیا اور پاکستان استحکام پارٹی کا جنم ہوا جس کی قربت مسلم لیگ ن سے زیادہ تھی اور اب بلاول بھٹو مسلم لیگ ن سے شکوہ کر رہے ہیں کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرلی ہے۔
مسلم لیگ ن سندھ میں کبھی بھی عوامی حمایت حاصل نہیں کرسکی ہے، 1988 میں جب انتخابات ہوئے تو میاں نواز شریف جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا کر آگے آئے اور انہوں نے خود کو پنجاب کا لیڈر ہونے کو فخر اور فوقیت دی اس کے بعد آئی جی آئی سمیت تمام اپوزیشن انہوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف کی، پیپلز پارٹی سندھ سے وفاق کی علامت سمجھی جاتی تھی
جب اس کے خلاف مہم چلائی گئی تو سندھ میں یہ تاثر عام ہوا کہ مسلم لیگ ن سندھ کے ووٹ یا نمائندگی کے خلاف ہے شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی بنا کیونکہ مسلم لیگ ن کی یہاں جڑیں نہیں تھیں۔
جب مشاہد حسین مسلم لیگ ن میں تھے تو ان کی کوشش رہی کہ سندھ میں کچھ جگہ بنائی جائے جس کے لیے انہوں نے دانشور لیگ سمیت کچھ تجربات کیے ،وہ لیفٹ کے دانشوروں سمیت سیاسی کارکنوں کو اپنے فولڈ میں لائے جبکہ روایتی طور پر جو لوگ لیگ کی یا اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کرتے رہے تھے وہ مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔
غلام مصطفیٰ جتوئی کا خاندان، پیر پگارا، ٹھٹھہ کا شیرازی خاندان، لیاقت جتوئی، غوث علی شاہ، الہٰی بخش سومرو یہ وہ شخصیات تھیں جن کی بنیاد پر مسلم لیگ ن سندھ میں اپنا وجود رکھتی تھی لیکن 2013 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن نے جیسے سندھ سے لاتعلقی اختیار کرلی۔ غوث علی شاہ اور الہٰی بخش سومرو نے کنارہ کشی اختیار کرلی غلام مصطفیٰ جتوئی کا بیٹا وفاقی وزیر ہونے کے باوجود گلے شکوے کرتا رہا ۔
ممتاز بھٹو کی بھی یہی شکایت رہی کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کی سندھ میں کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔
؎کراچی میں مسلم لیگ ن میں سردار رحیم،ایڈووکیٹ ضیا، حلیم صدیقی جیسے لوگ ہوتے تھے جو ان دنوں میں بھی ان کے ساتھ رہے جب قیادت مشکلات میں تھی۔ سردار رحیم نے تو جنرل مشرف کی کتاب ان دی لائن آف فائر کو کراچی پریس کلب کے باہر اپنے ہاتھوں سے آگ لگائی تھی، اس کے بعد ان کے بلاول ہاؤس کے قریب موجود ہوٹل پر دھاوابولا گیا لیکن یہ سارے لوگ سائیڈ لائن ہوگئے یا کردیئے گئے جبکہ ایسے لوگ آگئے آئے جن کے کراچی میں حلقے نہیں تھے یا عوامی پذیرائی نہیں تھی۔
موجودہ وقت میںبھی مسلم لیگ ن کی تمام سرگرمیاں پنجاب تک ہی محدود ہیں، تبدیلی صرف یہ ہوئی ہے کہ شاہ محمد شاہ کو ہٹاکر سابق بیورو کریٹ اور پولیس افسر بشیر میمن کو صوبائی صدر مقرر کیا گیا ہے، ہالا سے تعلق رکھنے والے بشیر میمن کے بھائی 2013 میں پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما مخدوم امین فہیم کے سامنے الیکشن لڑے تھے ان دنوں بشیر پولیس میں تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے بھائی کی بھرپور مہم چلائی تھی پولیس کے ساتھ ساتھ ان کا پریس سے بھی اچھے تعلقات رہے ہیں۔
آنے والے انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن سندھ میں جی ڈی اے ، ایم کیو ایم پر انحصار کرتی ہوئی نظر آرہی ہے جبکہ جمعیت علما اسلام بھی حالیہ دنوں سرگرم ہے ۔آصف زرداری کے دعوے اپنی جگہ لیکن مولانا فضل الرحمان شریف خاندان سے دوستی زیادہ نبھاتے نظر آر ہے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صورتحال کچھ ایسی بن گئی ہے کہ پنجاب کو فوکسڈ کیا جائے باقی کچھ نشستیں کراچی سے لے آئیں یا ایم کیو ایم کو شامل کرلیں ،کچھ بلوچستان سے مئیینج کرلیں جس کی شکل باپ ہوسکتی ہے ،
اسی طرح جنوبی پنجاب میں استحکام پارٹی موجود ہے اس طرح ایک ویلڈنگ شدہ حکومت بنانے کی تیاری ہوچکی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر ساری سیاست کا مرکز پنجاب بن جائیگا تو وسائل کی تقسیم، پانی کی تقسیم سے لیکر مردم شماری تک کے مسائل شدت اختیار کریں گے جبکہ چھوٹے صوبے برابری کی تقسیم چاہتے ہیں ان کی تو آواز ہی نہیں اٹھ سکے گی کیونکہ کمزور اور لاغر سیاسی قیادت پنجاب کے زیر اثر ہوگی عوام کی حقیقی نمائندگی پس منظر میں چلی جائیگی جو نہ صرف جمہوری نظام بلکہ وفاق کے لیے بھی بہتر نہیں۔