|

وقتِ اشاعت :   October 31 – 2023

موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی گیس کی قیمت میں اضافہ کردیاگیاہے،

گیس تو موسم گرما کے دوران بھی نایاب تھی اب تو سردی کا موسم ہے تو گیس کہاں سے آئے گی یعنی یہ تو طے ہے کہ گیس آئے نہ آئے عوام کو بھاری بھرکم بل ادا کرنے پڑینگے۔ یہ سراسر زیادتی ہے عوام کو اب تک کسی بھی مد میں کوئی خاص ریلیف نہیں مل سکا ہے ،قصور جتنانگراں حکومت ہے اتنا ہی ماضی کی حکومتوں کے کارنامے بھی ہیں جن کے نتائج اب عوام بھگت رہے ہیں۔

جبکہ انہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اب عام انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں عوامی اجتماعات میں وہی پرانے دعوے کئے جارہے ہیں کہ اقتدار میں آکر ملک کو بحرانات سے نکالیں گے عوام کو ریلیف فراہم کرینگے ہر سہولت ان کی دہلیز پر میسر ہوگی لیکن جب حکومتی بھاگ ڈور سنبھالتے ہیں تو بری معیشت کا رونا روتے ہوئے ایک بار پھر ماضی کی حکومتوں کوکوستے دکھائی دیتے ہیں جبکہ وہ خود بھی ماضی میں حکومتوں کا حصہ رہے ہیں مگر ڈھٹائی کے ساتھ عوام کے سامنے غلط بیانی کی جاتی ہے۔گزشتہ پی ڈی ایم حکومت میں ملک کی تمام چھوٹی بڑی جماعتیں شامل تھیں ان کی کارکردگی سامنے ہے کہ کتنی بڑی تبدیلی لائے بلکہ ان کے دور حکومت میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا، عوام پر پیٹرول، بجلی کا بم گرایا گیا جوتاہنوزجاری ہے۔

اب گیس کی قیمت میںاضافہ بھی پچھلی حکومتوں کی کارکردگی کامنہ بولتا ثبوت ہے کہ ان کے پاس کوئی مؤثر، ٹھوس اورجامع پالیسی ہی نہیں کہ کس طرح ملک کو بحرانات سے نکالیں گے۔ توانائی اور ایندھن کے استعمال ، معدنی ذخائر خاص کر گیس کی دریافت اور اس سے کس طرح فائدہ اٹھاکر عوام کو ہی نہ صرف فائدہ پہنچایاجائے بلکہ صنعتوں کی ترقی اور فروغ کے لیے گیس سمیت دیگر معدنیات کوبروئے کار لایاجائے۔ بہرحال نگراں وفاقی وزیر محمد علی کا کہناہے کہ ملک کا نقصان ختم کرنے کیلئے گیس کی قیمتوں میں اضافہ ضروری تھا۔ اسلام آبادمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگران وزیر توانائی نے کہا کہ پاکستان میں گیس کی قیمت حکومت دیتی ہے،اوگرا کو اس سال 697 بلین روپے چاہیے تاکہ گیس خریدی جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے 10 سالوں سے گیس ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں، آج ہزار ارب روپے سے کم کی گیس اور آئل نکال رہے ہیں چونکہ گیس کی مقامی پیداوار کم ہے،

آر ایل این جی کی درآمد کرنی پڑتی ہے، مقامی سطح پر ضرورت پوری کرنے کیلئے 210 ارب ادا کرنے پڑتے ہیں،

رواں مالی سال بھی قیمتیں نہ بڑھاتے تو 400 ارب کا نقصان ہوتا۔ نگران وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ گزشتہ ادوار میں قیمتیں بڑھائی جاتیں تو آج اتنا اضافہ نہ ہوتا، 10برس میں گیس کمپنیوں کو 879 ارب روپے کا نقصان ہوا،

پوری گیس چین کا نقصان 2100 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے تاہم گیس قیمتیں بڑھانے سے اب پیٹرولیم سیکٹر کا سرکلر ڈیٹ نہیں بڑھے گا۔

انہوں نے واضح کیا کہ تندوروں کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے، گیس کی قیمتوں سے متعلق فیصلہ آسان نہیں مشکل تھا، قیمتوں میں اضافہ بہت بڑا فیصلہ تھا۔بہرحال قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ نگراں حکومت بھی کر رہی ہے اور منتخب حکومتیں بھی کرتی رہی ہیں عوام کی مشکلات نہ ان کے پیش نظر ہیں نہ اُن کے پیش نظر تھیں ، ان کو قیمت بڑھانی ہو تو پھر دس پندرہ فیصد نہیں ،

دو سو فیصد تک بڑھا دیتی ہیں یعنی حکومتوں کو گیس کمپنیوں کے منافع کی فکر رہتی ہے کہ اس میں کوئی کمی نہیں آئے بیشک عوام کا دیوالیہ نکل جائے ۔عوام کو تو ہر طرف اندھیرا اور مایوسی نظر آرہی ہے کیونکہ ان کے سامنے کوئی ایسی حکومت نہیں آنے والی جو انہیں مشکلات سے نکالے کیونکہ انہوں نے تو سب کو آزما کر دیکھ لیا ہے۔