|

وقتِ اشاعت :   November 2 – 2023

سپریم کورٹ میں ملک میں عام انتخابات 90 روز میں کرانے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اپنے ہاتھ کھڑے کر کے کہہ رہے ہیں جاؤ عدالت سے رائے لے لو۔

چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔

ایڈووکیٹ عابد زبیری اور پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر روسٹرم پر آئے، چیف جسٹس نے وکلا سے مکالمہ کیا کہ دلائل کون دے گا؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ پہلے مجھے دلائل دینے کا موقع دیں، سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے میں وکیل ہوں، وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی وکالت میں کررہا ہوں۔

علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اپنی استدعا کو صرف ایک نقطہ تک محدود مروں گا، استدعا ہے الیکشن ٹائم کے مطابق وقت پر ہونے چاہیے۔

وکیل پیپلز پارٹی فاروق نائیک نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ کسی فریق کو اعتراض تو نہیں اگر عدالت فاروق نائیک صاحب کو اس کیس میں سنے۔

وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ ہم فاروق ایچ نائیک صاحب کو خوش آمدید کہتے ہیں، عدالت نے پیپلز پارٹی کو انتخابات کیس میں فریق بننے کی اجازت دے دی۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ انتخابات 90 روز میں کروائے جائیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی 90 دنوں میں انتخابات کی استدعا تو اب غیر موثر ہو چکی، وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کی رائے جاننے سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ کیا کہ اب آپ صرف انتخابات چاہتے ہیں، وکیل علی ظفر نے کہا کہ جی ہم انتخابات چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس کی کوئی مخالفت کرے گا، میرا نہیں خیال کوئی مخالفت کرے گا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ مخالفت کریں گے جس پر اٹارنی جنرل نے انکار میں جواب دیا، وکیل علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 58اور 224 پڑھا جا سکتا ہے، انتخابات نہیں ہوں گے تو نہ پارلیمنٹ ہوگئی نا قانون بنیں گے، انتخابات کی تارہخ دینا اور شیڈول دینا دو چیزیں ہیں، الیکشن کی تاریخ دینے کا معاملہ آئین میں درج ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ وزارت قانون نے رائے دی کہ صدر مملکت تارہخ نہیں دے سکتے، 90 دنوں کا شمار کیا جائے تو 7 نومبر کو انتخابات ہونے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صدر مملکت کو الیکشن کمیشن کو خط لکھنے مئں اتنا وقت کیوں لگا، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صدر مملکت نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کے لیے ہم سے رجوع کیا۔

علی ظفر نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ پھر آپ خط ہمارے سامنے کیوں پڑھ رہے ہیں، صدر کے خط کا متن بھی کافی مبہم ہے، صدر نے جب خود ایسا نہیں کیا تو وہ کسی اور کو یہ مشورہ کیسے دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر کیا آپ کہہ رہے ہیں صدر نے اپنا آئینی فریضہ ادا نہیں کہا، 9 اگست کو اسمبلی تحلیل ہوئی اور صدر نے ستمبر میں خط لکھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کی کمانڈ بڑی واضح ہے صدر نے تاریخ دینا تھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اختلاف کرنے والے چاہیں اختلاف کرتے رہیں ، ہم اس معاملہ کا جوڈیشل نوٹس بھی لے سکتے ہیں، آخری دن جا کر خط نہیں لکھ سکتے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں صدر نے الیکشن کی تاریخ تجویز کر دی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہم سے اب کیا چاہتے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم صدر کو ہدایت جاری کریں کہ آپ تاریخ دیں، صدر کہتے ہیں فلاں سے رائے لی فلاں کا یہ کہنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اب یہ عدالت صدر کے خلاف رٹ جاری کر سکتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 98 بہت واضح ہے اس پر اس عدالت کا کردار کہاں آتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق تاریخ دینا صدر کا اختیار ہے، پھر آپ بتائیں کہ کیا اس عدالت کو بھی تاریخ دینے کا اختیار ہے، اگر صدر نے بات نہ مانی تو ہم انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صدر مملکت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جس دن قومی اسمبلی تحلیل ہوئی اسی دن صدر تاریخ دیتے تو کوئی بھی اعتراض نہ اٹھا سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے پوری مشینری شامل ہوتی ہے، کیا سپریم کورٹ انتحابات کی تاریخ دے سکتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے کبھی کہا کہ صدر تاریخ دے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتحابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہمارا ہے، صدر مملکت کی تاریخ نہ دینے کے پہلو کو ایک طرف رکھ کر ہمیں سپریم کورٹ کو بھی دیکھنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم صدر کے خلاف جا کر خود انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، آئین پاکستان نے ہمیں تاریخ دینے کا اختیار کہاں ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک مرحلے میں مداخلت کر چکی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس وقت سوال مختلف تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کا انعقاد تو اچھی چیز ہے پرابلم نہیں ہے، آپ کے لیڈر صدر کے بھی لیڈر ہیں، صدر فون کر کے کیوں نہیں کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ دیں۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ کی دلیل تو یہ ہے کہ صدر نے آئین سے انحراف کیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بادی النظر میں حکومت ،الیکشن کمیشن اور صدر مملکت تینوں ذمہ دار ہیں، اب سوال یہ ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے، انتخابات تو وقت پر ہونے چاہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب کیا آپ سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ آپ صدر کو ایک فون کر کے کیوں نہیں کہتے کے تاریخ دیں، علی ظفر نے کہا کہ وہ صدر پاکستان ہیں پورے ملک کے صدر ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہم سے ان کے خلاف کارروائی چاہ رہے ہیں، صدر اپنے ہاتھ کھڑے کر کے کہ رہے جاو عدالت سے رائے لے لو، صدر پھر خود رائے لینے آتے بھی نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات میں التوا کے لیے الیکشن کمیشن سمیت سب ذمہ دار ہیں، مقررہ مدت سے اوپر وقت گزرنے کے بعد ہر دن آئنی خلاف ورزی ہورہی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ صدر نے صرف بتایا ہے 89 دن فلاں تاریخ بنتی ہے، صدر کی گنتی تو ٹھیک ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے کے 90 روز کے اندر عام انتخابات کرانے کی تاریخ کے لیے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد شاہد زبیری نے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواست میں عام انتخابات 90 روز میں کرانے اور نئی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات کرانےکا مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا فیصلہ بھی چیلنج کیا تھا۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلےکی روشنی میں جاری نوٹی فکیشن غیر قانونی قرار دیا جائے، مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں خیبرپختونخوا (کے پی) اور پنجاب کے نگران وزرائے اعلیٰ شریک تھے اور اس طرح مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل آئینی نہیں تھی۔

 

 

انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا کورم ہی پورا نہیں ہوا، کونسل کی تشکیل اور کورم پورا نہیں ہو تو اس کے فیصلوں پر عمل در آمد کیسے ممکن ہوگا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کرانے کے لیے متعلقہ فورم نہیں بنتا تھا، آئین کا آرٹیکل 224 کی شق 2 الیکشن کمیشن کو انتخابات 90 دنوں کے اندر کرانے کا پابند کرتی ہے۔

سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نے استدعا کی ہے کہ عدالت قرار دے کہ الیکشن کمیشن کسی صورت انتخابات 90 دنوں سے آگے نہیں بڑھا سکتا، الیکشن کمیشن کے پاس کوئی آئینی اختیار نہیں کہ وہ نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر انتخابات میں تاخیر کرے۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں وفاق، مشترکہ مفادات کونسل، چاروں صوبوں اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔

29 اگست کو جماعت اسلامی نے اپنے وکیل غلام محی الدین ملک کے توسط سے آئین کے آرٹیکل 224 (2) کے تحت 90 روز کے اندر عام انتخابات کرانے کی درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت عظمیٰ، الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 (2) کے مطابق الیکشن کمیشن کو فوری طور پر الیکشن شیڈول کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کی ہدایت جاری کرے۔

اس میں مزید استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 218 (3) کے تحت مقررہ مدت کے اندر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کے فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں ایگزیکٹو اتھارٹیز کو مدد اور تعاون کا حکم دیا جانا چاہیے۔

جماعت اسلامی کی جانب سے درخواست دائر کرنے سے 2 روز قبل پی ٹی آئی کی جانب سے اسی طرح کی ایک درخواست پارٹی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان نے دائر کی تھی۔

درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ الیکشن کمیشن کو الیکشن شیڈول جاری کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنرز کو بھی ہدایت جاری کرے کہ وہ پنجاب اسمبلی الیکشن کیس کےعدالتی فیصلے کے مطابق متعلقہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔

ایڈووکیٹ سید علی ظفر کے توسط سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی جانب سے 5 اگست کو ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے فیصلے کو جس کے تحت نئی حد بندیوں کو لازمی قرار دیا گیا تھا، غیر قانونی، خلاف قانون قرار دے کر کالعدم کرے۔

اس کے علاوہ پاکستان شماریات بیورو کی جانب سے 8 اگست کو جاری کردہ نوٹی فکیشن کو بھی غیر قانونی قرار دیا جائے جس میں 2023 کی مردم شماری کو پبلک کیا گیا تھا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئین کے تحت بروقت انتخابات عوامی اہمیت کے حامل اور بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔