سپریم کورٹ نے انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے ایک طرف غیر یقینی اور ابہام کا خاتمہ کیا ہے تو دوسری جانب میاں نواز شریف اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے لیے بھی سیٹی بجا دی ہے کہ وقت کم ہے۔
عمران خان کو نااہلی ختم کرکے انتخابات میں شرکت کے لیے توشہ خانہ کیس سے بریت درکار ہے،
اسی طرح میاں نواز شریف کو ایوین فیلڈ اور العزیزیہ کیس میں بریت چاہیئے اس کے علاوہ پنامہ کیس میں بھی انہیں نااہلی کا سامنا ہے۔اس صورتحال کا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے آنے والے فیصلے بھی پاکستان کی سیاسی صورتحال کے لیے اہمیت کے حامل ہوں گے۔
مسلم لیگ ن کا خیال ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 جس میں پی ڈی ایم کی حکومت نے 2023 میں ترامیم کی تھیں اور نااہلی کی مدت پانچ سال تک محدود کی گئی تھی اس سے میاں نواز شریف کو فائدہ ہوگا تاہم کیا دیگر حریف جماعتیں آسانی سے یہ ہونے دیں گی یا اس کو سپریم کورٹ میںچیلنج نہیںکیا جائیگا یہ اس بات پر منحصر ہے کہ
مسلم لیگ ن اوردیگر جماعتوں اور مقتدرہ کو کس قدر راضی رکھتی ہیں۔ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری تو واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کو وزیراعظم بننے ن
ہیں دوں گا، مولانا فضل الرحمان کا دونوں جماعتوں میں قاصد کا کردار اہم ہے کہ کیسے لو دو کی بنیاد پر راضی کرتے ہیں۔
تحریک انصاف سے ابھی تک سیاہ بادل نہیں ہٹے، یہی وجہ ہے کہ جب سپریم کورٹ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر رہی تھی تو قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر کو گرفتار کرلیا گیا اس کے علاوہ امین گنڈہ پور کے لیے بھی چھاپے مارے جارہے ہیں جو دونوں خیبرپختون خواہ میں حالیہ دنوں سرگرم تھے۔
پچھلے دنوں اسد قیصر کی قیادت میں تحریک انصاف کے وفد نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی تھی دونوں کا خیال تھا کہ ان کی چپقلش سے تیسرے فریق کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ان کا اشارہ پرویز خٹک اور استحکام پارٹی کی طرف تھا جس کا مستقبل تحریک انصاف کے بکھرنے سے وابستہ ہے۔
استحکام پارٹی بھی اس وقت تک جنوبی پنجاب میں ہی سیاسی سرگرمیاں کر رہی ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ ان کی نظریں وہاں کی نشستوں پر ہے جس پر پاکستان پیپلز پارٹی بھی نظر رکھی ہوئی تھی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کئی ماہ سے یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جارہی یعنی سب کو یکساں موقعے فراہم نہیں کیے جارہے اس کی تردید نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کرچکے ہیں بلکہ ان کا یہ کہنا تھا کہ اگر لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطلب یہ ہے کہ کسی جماعت کو ہاتھ سے لیکر اقتدار تک پہنچائیں
تو یہ ممکن نہیں۔
لیول پلیئنگ فیلڈ کا معاملہ اس وقت شدت سے اٹھا تھا جب سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف خود ساختہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئے، ایئرپورٹ پر ان کے استقبال سے لیکر ان کی ضمانت تک کے مناظر ایسے رہے جس پر حریف جماعتوں نے اعتراضات اٹھائے تاہم سابق وفاقی وزیر اسحاق ڈار نے گزشتہ روز وضاحت کی کہ انہیں کبھی بھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی گئی۔
بلوچستان میں قوم پرست رہنما اختر مینگل کو بھی یہ شکایت ہے کہ انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جارہی بلکہ انہیں وڈھ میں محدود کیا جارہا ہے اس وقت وہ ایک بار پھر 2008 کی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں جب اپنی سرداری بچانے کے ساتھ ساتھ ان پر سیاسی وراثت کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی دباؤ تھا، وہ مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پی ڈی ایم اے کی حکومتوں کے وفاقی سطح پر اتحادی بھی رہے لیکن ہر بار وہ مایوس ہوئے اس مرتبہ بھی وہ کہہ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم نے انہیں مایوس کیا۔
انوار الحق کاکڑ کے نگران وزیر اعظم اور سرفراز بگٹی کے وفاقی وزیر بننے کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی عرف باپ غیر سرگرم نظر آتی ہے کیونکہ نگران سیٹ اپ میں اس قدر حصہ ملنے کے بعد یہ سوال بھی اہم ہے کہ آنے والی سیٹ اپ میں بھی کوئی بڑا حصہ ہوگا یا کسی کا اتحادی بننا پڑے گا۔ نگراں سیٹ اپ سے قبل انوار الحق کاکڑ اور جام کمال نے مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز سے ملاقات کی تھی جس کے بعد یہ تاثر لیا جارہا تھا کہ شاید وہ مسلم لیگ ن میں شامل ہونے جارہے ہیں لیکن ایسا نہ ہوا۔
حال ہی میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سے ملاقات کی، اس ملاقات کو انہوں نے ذاتی نوعیت کی قرار دیا یہ حقیقت بھی ہے کہ جام کمال کے دادا بھٹو دور میں وزیر اعلیٰ رہے لسبیلہ میں ماضی میں پیپلز پارٹی کا ووٹ رہا ہے، لیکن اتنے عرصے کے بعد ذاتی نوعیت کی ملاقات قرار دینا بھی سیاسی بیان ہے۔
انتخابات میں شفافیت کیسے برقرار رکھی جائے گی ؟
کیا ریاستی ادارتی عمل دخل کو روکا جائے گا ہر جماعت اور ہر ووٹر آزادانہ ووٹ دیگا اور اس کا نتیجہ بھی اس بیلٹ میں سے حقیقی طور پر ڈالے گئے ووٹ کے نتیجے میں نکلے گا الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کے لیے ہمیشہ یہ چیلنج رہا ہے۔
2018 کے انتخابات میں آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا اور نتائج کا اعلان تاخیر سے کیا گیا جس نے شک و شبہات کو جنم دیا نتیجے میں سیاسی جماعتوں میں کئی سال تک رسہ کشی جاری رہی یہ معاملہ یہاں نہیں رکا تھا بعد میں کراچی کے ضمنی انتخابات ہوں یا ملک کے دیگر علاقوں کے وہاں بھی آر ٹی ایس سسٹم غیر فعال رہا ،
نتائج کا اعلان تاخیر سے کیا گیا۔ اس وقت نادرا کا چیئرمین پاک فوج سے تعینات کیا گیا ہے لہذا کسی بھی قسم کا نقص اس صورتحال کو ایک دوسری رخ میں لے جاسکتا ہے۔
الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے سے ایک اور بات بھی واضح ہوگئی
کہ نگران حکومت کا کردار محدود ہوگیا ورنہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ سیٹ اپ ایک بڑے وقت کے لیے آچکا ہے کیونکہ سندھ ،بلوچستان اور وفاقی حکومت جس طرح نجکاری سے لیکر معدنی وسائل اور پالیسی کے فیصلے کررہے تھے حالانکہ ماضی میں نگران حکومتوں کا کردار ہمیشہ ہی محدود رہا ہے یقیناً انہیں یہ باور کرایا گیا ہوگا کہ آپ ایک طویل مدت کے لیے آئے ہیں تبھی تو وہ اس جوش و خروش میں تھے۔