|

وقتِ اشاعت :   November 4 – 2023

جب آپ دو مرتبہ بم دھماکے میں زخمی ہوں توذہنی صحت کیسے متاثر نہیں ہوگی۔ دہائیوں سے شورش زدہ رہنے والے صوبہ بلوچستان میں صحافی نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگے۔ کیا صحافیوں کو بروقت طبی امداد مل پائیں؟
پاکستان کا صوبہ بلوچستان دو دہائیوں سے شورش زدہ رہا ہے۔ یہاں بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں، تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی اور داعش جیسی تنظیمیں مسلسل کارروائیاں کرتی رہی ہیں۔

ان کاروائیوں میں ٹارگٹ کلنگ، دستی بم حملے اور خودکش بم دھماکے شامل ہیں۔ ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ صحافی فرنٹ لائن ورکرز ہیں جب کبھی صحافی کونفلکٹ جیسے واقعات کو رپورٹ کرتے ہیں تو انہیں زہنی دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ کسی نا خوشگوار واقعہ کے بعد جب صحافی کوریج کے لئے وقوعہ پر پہنچتے ہیں تو انہیں اکثر یہ ڈر لگا رہتا ہے کہیں دوسرا بم دھماکہ نہ ہو جائے۔

جیسا کہ آٹھ اگست دو ہزار سولہ کو سول ہسپتال میں ہوا تھا۔ جب وکلا رہنما بلال انور کاسی کو قتل کیا گیا اور ان کی لاش سول ہسپتال پہنچا ئی گئی تو بڑی تعداد میں وکیل اور صحافی وہاں پہنچے تو ایک خودکش حملہ آور پہلے سے وہاں انتظار کر رہا تھا۔

اس بم دھماکے میں دو صحافیوں سمیت 70 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 120 کے قریب زخمی ہوئے۔ زخمی اور ہلاک ہونے والوں میں اکثریت وکلا کی تھی۔
ہم نے صحافی زین الدین سے یہ جاننے کی کوشش اس قسم کے کشیدہ حالات میں صحافت کتنی مشکل ہے؟

اس سوال کے جواب میں وہ بتاتے ہیں کہ کوئٹہ میں ایک ایسا وقت بھی آیا، کہ ایک روز میں پانچ دھماکے ہوتے تھے۔
یہ جون 2013 کی بات ہے کہ جب زین الدین کو اطلاع ملی کہ کوئلہ کی سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں دھماکہ ہوا۔
تاریخ میں پہلی بار ایسے ہوا کہ کسی خاتون خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا ہو، اس حملے کا ہدف ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی طالبات تھیں۔

بم دھماکے کے نتیجے میں 11 طالبات ہلاک ہوئیں۔ بات یہی ختم نہیں ہوتی اس منظم حملے کی پلاننگ کچھ اس طرح سے کی گئی تھی کہ جب زخمیوں کو ساتھ ہی واقع بولان میڈیکل کمپلیکس منتقل کیا گیا تو وہاں ایک اور حملہ ہوگیا۔
جب صحافی اور سرکاری آفیسران کوئٹہ کے بولان میڈیکل کمپلیکس پہنچے تو وہاں موجود مسلح افراد نے فائرنگ کا سلسلہ شروع کردیا جس کے نتیجے میں ہلاکتیں 11 سے بڑھ 25 ہوگئیں۔ اس واقعہ کی زمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی۔
زین الدین جب بولان میڈیکل کمپلیکس پہنچے تو وہ بھی حملے کی زد میں آگئے۔ جسکے نتیجے میں وہ زخمی ہوگئے۔ زین الدین کہتے ہیں
میرے جسم پر لگے زخموں کا علاج تو ہو گیا لیکن زندگی کی وہ تلخ یادیں آج بھی زہن میں نقش ہیں”

اس واقعہ کے بعد زین الدین کے کام میں خلل بھی پڑا اور ان کی زہنی صلاحیتیں بھی متاثر ہوئیں۔ لیکن وہ کاونسلنگ سیشنز نہیں لے پائے۔
نہ صرف کوئٹہ شہر بلکہ پورے صوبہ بلوچستان میں سرکاری سطح پر ایک بھی ایسا ادارہ قائم نہیں جہاں نفسیاتی مسائل کے شکار افراد کی کاونسلنگ تھراپی کی جا سکے۔
جب زین الدین کے سامنے ان کے دیگر صحافی دوست مارے گئے تو ایسے حالات میں انکی زہنی صحت مذید متاثر ہونے لگی۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کی جانب سے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق صوبے بھر میں ابتک ملک کے دیگر صوبوں کی بنسبت سب سے ذیادہ 43 صحافی مارے گئے ہیں۔

زین الدین بتاتے ہیں کہ نفسیاتی مسائل کے حل کے لئے پریس کلب، حکومت، میڈیا مالکان اور صحافی تنظیموں میں سے کسی نے بھی توجہ نہ دی۔ ” اسی وجہ سے اکثر صحافیوں کی تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہوئیں۔

عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق دنیا بھر میں 1 ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے گزشتہ سال مال پریکٹس ان مینٹل ہیلتھ پاکستان اے کال فار ریگولیشن کے نام ایک تحقیق شائع کی جس سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان میں 18 سال سے زائد عمر کے ہر 4 میں سے 1 شخص کسی نہ کسی زہنی بیماری کا شکار ہے۔ ان میں سے 80 فیصد افراد کو طبی سہولیات میسر نہیں ہوپائے گی۔
ماہر نفسیات سعدیہ بتاتی ہیں کہ بلوچستان کا شاید ہی کوئی صحافی ہو جس نے بم دھماکہ یا پھر کشیدہ صورتحال نہ دیکھی ہو۔
صحافیوں کو فلیش بیکس آنا اور زہنی مسائل کی ایک قسم پوسٹ ٹراماٹک سٹریٹ ڈس آرڈر (پی ٹی ایسی ڈی) عام سی بات ہے۔
(پی ٹی ایسی ڈی) کی دو اقسام ہوتی ہی ایک نیوروٹیک جس کا ادویات کے زریعے علاج کیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا سا ئکوٹیک ڈس آرڈر جس کو کاونسلنگ اور مختلف تھراپی کی مدد سے دور کیا جاتا ہے۔
بلوچستان میں جب کسی کو نفسیاتی بیماری ہو تو ادویات کی طرف چلے جاتے ہیں حالانکہ بعض کیسز میں کاونسلنگ تھراپی کافی ضروری ہوتی ہے لیکن سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب نہ صرف صحافیوں بلکہ کسی بھی شہری کو کاونسلنگ سیشنز تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔
بم دھماکوں اور اپنی آنکھوں کے سامنے دوستوں کو مرتے دیکھنا، موت کا خوف اور کام کا دباوؑ صحافیوں کو زہنی مسائل میں مبتلا کر دیتا ہے۔

وہ تجویز دیتی ہیں کہ کم از کم پریس کلب میں ماہر نفسیات کا ہونا ضروری ہے جو صحافیوں کے نفسیاتی مسائل کے حل کے لئے بروقت موجود ہو۔

پاکستان فیڈرل یونین آفں جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کے سابق صدر شہزادہ زوالفقار نے اپنے صحافی دوست ( جن کا نام وہ بتانا نہیں چاہتے) کا تزکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے دوست کو اس وقت دل کا دورہ پڑا جب انہیں مختلف (مسلح) گروہوں کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ “اگر انہیں بروقت کاونسلنگ کی سہولت میسر کی جاتی تو شاید ان کی زندگی بچائی جا سکتی تھی۔
دوست صحافی کا نام شامل کریں۔ “
شہزادہ بتاتے ہیں کہ اکثر گروہ یا افراد صحافیوں کی خبروں سے ناخوش ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے صحافیوں کو جان سے مارنے اور نقصان پہنچانے نے دھمکیاں موصول ہوتی ہیں۔
اکثر صحافیوں نے تو اپنے ساتھ کام کرنے والے دوستوں کی لاشیں تک اٹھائیں ہیں۔ ان حالات کا اثر انسانی ذہن پر تو ضرور ہوگا۔
فرید خان کی کہانی زین الدین سے کچھ اس طرح مختلف ہے کہ وہ دو مرتبہ بم دھماکوں میں شدید زخمی ہوئے۔ فرید خان کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ وہ نجی ٹی وی چینل میں کرائم رپورٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ سال 2010 اور 2016 میں دو بم دھماکوں میں زخمی ہوئے۔
“میرا دو مرتبہ زخمی ہونا ایک درد ناک کیفیت تھی۔ اور اس کیفیت سے نکلنے میں کافی وقت لگا جسمانی صحت تو ٹھیک ہوگئی پر میری ذہنی صحت متاثر ہے۔ شاہد آسکی وجہ بروقت ماہر نفسیات کی خدمات نہ لینا ہے۔”
نفسیاتی مسائل کا شکار صحافیوں کے اہلخانہ بھی ہوتے ہیں، شہزاد 2016 کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے خودکش بم حملے میں جاں بحق ہوئے۔
بم دھماکہ میں شہید ہونے والے صحافی کی بیوہ نےبتایا کہ “جس دن ان کی شوہر کی شہادت ہوئی اسی دن سے مجھ پر خوف طاری رہتا ہے۔”
وہ بھی نفسیاتی مسائل کے حل کے لئے طبی امداد نہ لے پائیں۔
“سالوں گزر جانے کے باوجود ہمارے گھر میں اب بھی ایک غم کا سماں ہے۔ مشکل ہے کہ ان کے چلے جانے کا غم کم ہوسکے۔”