|

وقتِ اشاعت :   November 4 – 2023

پنجاب بھر میں بلوچ طلباء غیر محفوظ ہوچکے ہیں ان کو کسی بھی وقت لاپتہ کیا جاتا ہے، ان کی نسلی پروفائلنگ کی جاتی ہے، انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ بلوچ طلباء کے لئے پنجاب نوگو ایریا بن چکا ہے، انہیں ہاسٹلز سے لاپتہ کردیا جاتا ہے

کوئی سننے والا نہیں ہے سب کی زبان پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کی جانب سے بلوچ طلباء کو تنگ کیا جاتا ہے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ان تمام واقعات میں جمعیت کو انتظامیہ کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے، انہیں مکمل چھوٹ دی جاتی ہے

کہ وہ بلوچ طلباء کا ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے استقبال کریں۔ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ہر سال دو یا تین دفعہ پنجاب کی یونیورسٹیز میں زیرتعلیم بلوچ طلباء کو انتظامیہ کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کے خلاف دہشت گردی اور منشیات کے جھوٹے مقدمات کیے جاتے ہیں۔
27 اکتوبر 2023 کوپنجاب یونیورسٹی سے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے یونیورسٹی میں زیر تعلیم فرید بلوچ کو جبری لاپتہ کردیا۔ فرید بلوچ بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ کا رہائشی ہے، وہ لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں تعلیمی ڈپارٹمنٹ میں ماسٹرز کے طالب علم ہیں۔ مذکورہ واقعے کی ویڈیو فوٹیج سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر وائرل ہوئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چند مسلح افراد کے ہمراہ پنجاب پولیس کے وردی میں ملبوس ایک شخص بلوچ طالب علم کو زبردستی ایک کار میں بٹھا رہا ہے۔

بلوچ نوجوان اپنے اغواء کاروں سے بچنے کے لئے مزاحمت کررہا ہوتا ہے جبکہ اس دوران اغواء کار نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنا کر گاڑی میں بیٹھاکر لے جاتے ہیں۔ نام نہاد قومی میڈیا میں بلوچوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، بلوچ مسئلے پر وہ اندھے اور بہرے ہوجاتے ہیں، سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے

جہاں بلوچ کی شنوائی ہوتی ہے، ان کا بس چلے تو سوشل میڈیا پر پابندی عائد کریں مگر یہ ان کے لئے ممکن نہیں ہے۔ فرید بلوچ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سخت عوامی رد عمل سامنے آیا،اس رد عمل کے بعد انہیں پنجاب پولیس کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ اس پر منشیات کا جعلی کیس لگایا جاتا ہے۔


اس وقت بلوچ طلباء پنجاب میں کسی بھی جگہ محفوظ نہیں ہیں۔ غلط پالیسیوں کی وجہ سے بلوچ طلباء عدم تحفظ کا شکار ہیں، طلباء میں مایوسی بڑھ رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ حکومت ایک خاص پالیسی کے تحت بلوچ طلباء کو قلم اور کتاب سے دور رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس تعصبانہ رویہ کی وجہ سے طلباء ایک ڈر اورخوف کی کیفیت سے گزررہے ہیں ۔


فرید بلوچ پہلا کیس نہیں ہے، ماضی میں بھی بے شمار بلوچ طالب علموں کو لاپتہ کردیا گیا ہے جن میں کچھ تاحال لاپتہ ہیں جن میں ایرڈ یونیورسٹی راولپنڈی کے طالب علم فیروز بلوچ شامل ہیں ان کی جبری گمشدگی کو ایک سال کا عرصہ گزر گیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی احکامات کے باجود انہیںمنظر عام پر نہیں لایا گیا، ایسا لگتا ہے کہ اغوا کار عدالتوں سے زیادہ طاقتور ہیں، وہ عدالتوں کو جواب دہ نہیں ہیں اور عدالتیں ان کی جیب میں ہیں۔

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علم حفیظ بلوچ کو8 فروری 2022 کو ان کے آبائی علاقے خضدار سے تین نقاب پوش مسلح افراد لاپتہ کرتے ہیں، حفیظ بلوچ کی گمشدگی کے خلاف بلوچستان اور پنجاب کے بڑے شہروں میں احتجاج کیا جاتا ہے اور بالآخر حفیظ بلوچ کو 15 مارچ 2022 کو جعفرآباد کے علاقے سیف آباد شاخ گوٹھ محمد مٹھل مگسی کی پولیس کے حوالے کردیا جاتا ہے اور ان پر دو کلوگرام بارودی مواد برآمدگی کا جھوٹا مقدمہ لگادیا جاتا ہے۔ عبدالحفیظ بلوچ کا تعلق خضدار کے علاقے باغبانہ سے ہے وہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں فزکس کے ایم فل کے فائنل ایئر کے طالب علم تھے۔

اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر کے ساتویں سمسٹر کے طالب علم بیبگر امداد کو 27 اپریل 2022 کو لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل کے کمرے سے اٹھالیا جاتاہے۔ وہ اسلام آباد سے لاہور چھٹیاں گزارنے اپنے کزن کے پاس پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہائش پذیر تھا۔ طویل احتجاج کے بعد انہیں دس مئی 2022 کو جھوٹے مقدمات کے ساتھ منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ لاہور میں زیر تعلیم دو طالبعلم عمران اور آدم کو اٹھالیا جاتا ہے، دونوں کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تجابان سے ہے اور دونوں فرسٹ ائیر کے طالب علم تھے دونوں طلباء کو سول ڈریس میں ملبوس افراد لاہور مسلم ٹاؤن میں واقع چائے کے اسٹال سے اغواء کرتے ہیں اور تشدد کے بعد چھوڑ دیا جاتاہے۔


پاکستان میں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں چہرے بھی بدلتے رہتے ہیں، وزیراعظم نیا آتا ہے اور وزراء بھی نئے آجاتے ہیں۔ دیگر صوبوں میں خوشیوں کا سماں ہوتا ہے ہر طرف خوشیاں اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں، لیکن بلوچستان میں وہی ماتم رہتا ہے لوگوں کی سوگوار زندگی چلتی رہتی ہے،

بلوچ سماج میں انسانی حقوق کی پامالی کا عمل جاری رہتا ہے، اقتدار حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو وہ جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں کو بطور سیاسی کارڈ استعمال کرتی ہیں اور جب اقتدار میں آتی ہیں تو یکدم ان کا موقف بھی تبدیل ہوجاتا ہے، ان کے منہ پر تالے لگ جاتے ہیں کیونکہ انہیں لاپتہ افراد کی جگہ وزارتیں پیاری ہوتی ہیں۔
31 اکتوبر 2023 کو خضدار سے تعلق رکھنے والے جبری لاپتہ عبدالحمید زہری اکتیس مہینے جبری گمشدگی کے بعد بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے۔ عبدالحمید زہری کو 10 اپریل 2021 کو کراچی سے حراست میں لینے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا تھا۔

اس کی بازیابی پر بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) کی سوشل میڈیا ٹیم نے کریڈٹ لینے کی کوشش کی اور اس کی بازیابی کا سہرا سردار اختر مینگل کے سر کردیا، حیران کن بات یہ ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے، اسے پارٹی کریڈٹ کی سیاست سے دور رکھنے کی ضرورت ہے۔ مجھے (راقم) ذاتی طورپر یہ اچھی طرح علم ہے کہ عبدالحمید زہری کی بازیابی ان کی اہلیہ فاطمہ بلوچ، بیٹی سعیدہ حمید، بیٹا ھمل بلوچ اور بیٹی ماہروز بلوچ کی اذیت ناک جدوجہد کا نتیجہ ہے، عبدالحمید زہری کے بچوں اور اہلیہ نے تین سال تک ان کی بازیابی کے لئے سڑکوں پر لاٹھیاں کھائیں، اذیتیں برداشت کیں یہاں تک کہ عبدالحمید زہری کی اہلیہ فاطمہ بلوچ، بیٹا ھمل بلوچ اور سات سالہ بیٹی ماہروز نے آرٹلری میدان تھانے میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
عبدالحمید کے اہل خانہ سمیت دیگر لاپتہ لواحقین پر کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے پر سندھ پولیس نے لاٹھیاں برسائیں اور انہیں بالوں سے گھسیٹ کر موبائل وین میں ڈالا گیا، اسی طرح کا ایک اور واقعہ سندھ اسمبلی کے سامنے پیش آیا جس میں بلوچ خواتین اور بچیوں پر سندھ پولیس کتوں کی طرح ٹوٹ پڑی، ان پر بدترین تشدد کیا گیا جبکہ ایک اور واقعہ ماری پور روڈ پر پیش آیا جس میں عبدالحمید زہری کی بہادر بیٹی سعیدہ حمید لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بدترین تشدد کا شکار ہوگئیں، انہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا، یہ تمام واقعات اس وقت پیش آئے جب بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) اقتدار کے مزے لے رہی تھی۔ عبدالحمید زہری کی بازیابی کا سہرا ان کے اہلخانہ کو جاتا ہے یہ ان کی طویل جدوجہد کا نتیجہہے،اس کا میں (راقم) چشم دید گواہ ہوں۔


خدارا! لاپتہ افراد کو ووٹ بینک کے طورپر استعمال نہ کیا جائے، یہ ایک انسانی مسئلہ ہے، سیاسی کریڈٹ کا سلسلہ اور پولٹیکل اسکورنگ بند کی جائے۔ موجودہ نگران وزیراعظم اور نگران وزیرداخلہ کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے لیکن یہ ایک بے بس حکومت ہے، لاپتہ افراد کا مسئلہ ان کی بس سے باہر ہے ان کو بھی پس پردہ کوئی اور قوت چلا رہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ریاست کیسی ماں ہے؟ جس میں بلوچ بچے محفوظ نہیں ہیں۔ انہیں لاپتہ کردیا جاتا ہے، الحاق پاکستان سے لے کر اب تک بلوچستان کے ساحل اور وسائل کو بے دردی سے لوٹا جارہا ہے، بلوچوں کی عزت نفس پر حملہ کیا جارہا ہے، ہر طرف ہراسگی کا راج گرم ہے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ بندوق کے زور پر حکومتیں نہیں چل سکتیں اور نہ ہی خوف پھیلانے سے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اتنا ڈر اور خوف بھی نہ پھیلایا جائے کہ اس سے بلوچ عوام کے دلوں سے موت کا خوف بھی نکل جائے۔