|

وقتِ اشاعت :   November 4 – 2023

فلسطین کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اب تو تقریباً ہر سال یہ ظلم و ستم دوہرایا جاتا ہے۔ایک طرف تو 1948 کے وہ دن ہیں جب یورپ کے بے شرم نو آبادیاتی آقا زبردستی یہودیوں کو سر زمین فلسطین پر لا کر آباد کرتے ہیں۔ اور سر زمین فلسطین کو تین ٹکڑوں میں بانٹ دیا جاتا ہے: مغربی کنارہ، غزہ کی پٹی اور اسرائیل۔

یوں اسرائیل کے وجود کی بنیاد ہی ظلم اور زبردستی پر استوار کیا جاتا ہے۔ اور جب مصر ، اردن، اور شام کی ا س وقت کی کمزور عرب حکومتیں اس ظلم کیخلاف اٹھتیں ہیں تویہ یورپی طاقتیں انہیں محض چھ دن میں شکست دے دیتی ہیں اور اسرائیل اردن سے بیت المقدس، شام سے گولان کی چوٹیوں اور مصر سے سینائی صحرا کا کچھ علاقہ بھی حاصل کر لیتا ہے۔

الغرض ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو بے گھر کر کے یورپ کی نام نہاد جمہوریت پسند اور انسان دوست حکومتیں فلسطین میں اسرائیل کے ناپاک وجود کا قیام عمل میں لاتی ہیں!


یہاں سے فلسطینی جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے اور فلسطین لیبریشن آرمی یا پی ایل او کے شہرہ آفاق قائد یاسر عرفات جہاد اور ڈپلومیسی دونوںہی کے ذریعے ان یورپی طاقتوں کو فلسطین کی آزادی پر مائل کرتے کرتے ایک طویل جدوجہد کے بعد اس دنیا سے گزر جاتے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کے مظالم نہتے اور کمزور فلسطینیوں پر روز بروز بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ نہتے فلسطینی غلیلوں اور پتھروں سے آزادی کی جدوجہد جاری رکھتے ہیں لیکن ان کا مقابلہ صرف اسرائیل سے نہیں بلکہ اسکی پشت پر کھڑے یورپی

اور خاص طور پر امریکی استعماری قوتوں سے بھی ہے۔ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد فلسطینیوں کی قربانی سے بھری پڑی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ 1982 میں لبنان کے فلسطینی پناہ گزین کیمپوں صابرہ اور شتیلہ میں اسرائیل نے انہیں یورپی اور امریکی استعماری آقاؤں کی شہہ پر مظلوم نہتے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی!!


دوسری طرف فلسطین میں آزادی کی جدوجہد نے ایک نئی تحریک حماس کو جنم دیا جس نے پی ایل او کی الفتح تنظیم کو پیچھے چھوڑ دیا اور اپنی عوامی خدمت اور آزادی کے تڑپ سے اس نے فلسطینیوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا ڈالی اور جب 2006 میںحماس الیکشن جیت کر غزہ کی پٹی میں اقتدار میں آئی تو دنیا کے سب جمہوریت کے ٹھیکیداروں نے اس جمہوری عمل کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور بعد ازاں اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر لیا اور وہاں بسنے

والے فلسطینیوں کی خوراک، پانی اور بجلی بند کر دی۔ یوں پچھلے بیس سالوں سے اسرائیل نے غزہ کا غیر قانونی اور غیر انسانی محاصرہ جاری رکھا ہوا ہے! اس پر مزید ظلم یہ کہ آئے دن باڑ لگا کر غزہ کی پٹی میں بھی اسرائیل فلسطینیوں کی بچی کھچی زمین پر غیر قانونی یہودی آباد کاروں کو بسانے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ اور یہ سب کچھ اس دنیا کی جمہوریت، عدل،اور انسانی حقوق کی علمبردار حکومتیں خاموشی سے دیکھ رہی ہیں۔

ان سب کو اچانک انسانی حقوق اور انصاف کا دورہ صرف ا س وقت پڑتا ہے جب مظلوم فلسطینی اپنے حق کیلئے انسانی حقوق اور عدل کے چیتھڑے اڑانے والے غاصب اسرائیل کیخلاف جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں! یہ سب نام نہاد انسانی حقوق کی علمبردار طاقتیں اصل میں غاصب اسرائیل کی پیٹھ ٹھونک رہی ہیں۔ اور یوں فلسطینیوں کا مقابلہ صرف اسرائیل سے نہیں ہے بلکہ اصل میں ان خون آشام استعماری طاقتوں سے ہے جنہوں نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ویٹو کے نام پر عدل و انصاف کا ایک مذاق بنایا ہوا ہے۔

ایک طرف ان استعماری طاقتوں نے اسرائیل کو پچھلے ستر سالوں سے فلسطین پر غاصبانہ قبضے اور آئے دن فلسطینیوں پر انسانیت سوز تشدد کی چھٹی دی ہوئی ہے تو دوسری طرف اقوام عالم کی

طرف سے اس غاصبانہ قبضہ اور قتل و غارتگری پر اگر کوئی ردعمل سامنے آتا بھی ہے تو یہ استعماری طاقتیں کمال بے شرمی سے ان تمام تر کاوشوں کو اپنے ویٹو سے زمین بوس کر دیتی ہیں۔ یوں ظلم و ستم اورنا انصافی کا یہ شیطانی چکر اسرائیل اور اسکی پشت پر کھڑے یورپی اور امریکی گماشتے ستر سال سے کھیل رہے ہیں۔ جب بھی یہ مظلوم فلسطینی اپنے حق کیلئے اٹھتے ہیں ان منافق طاقتوں کو انسانی حقوق یاد آ جاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ استعماری طاقتیں ہیں جو فلسطینیوں پر گزشتہ ستر سال سے مل کر انسانیت سوز مظالم ڈھا رہی ہیں،

دراصل یہ استعماری طاقتیں مظلوموں کو کھلا پیغام دے رہی ہیں کہ چپ چاپ غلام بن کر ظلم سہتے رہو تو تمہیں زندہ رہنے کی اجازت دی جائیگی وگرنہ تمہیں تمہاری عورتوں اور بچوں سمیت بمباری کر کے تمہارے اپنے گھروں میں ہی دفن کر دیا جائیگا!!!
اس ساری شرمناک کہانی کے کچھ اور بھی بھیانک کردار ہیں جو ان استعماری طاقتوں کیساتھ

ملکر اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں پر اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں۔ مثال کے طور پر مصر کی حکومت کو ہی لے لیں۔ یہ ایک آمرانہ حکومت کی غلیظ مثال ہے۔ مصر کی سرحد رفاہ کے مقام پر غزہ کی پٹی سے ملتی ہے لیکن مصر کی آمرانہ حکومت نے یہ سرحد امریکی ایما پر بالکل اسی طرح ہی سیل کی ہوئی ہے جیسے اسرائیلی افواج نے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ یہ وہ بے شرم نام نہاد اسلامی ممالک ہیں جو اپنے فلسطینی بہن بھائیوں پر انسانیت سوز سلوک میں برابر کے شریک ہیں۔ وگرنہ اگر یہ سرحدیں کھول دی جائیں تو فلسطینیوں کے حق آزادی کو کسی

طور پر یہ استعماری طاقتیں یوں کچل نہ سکیں! دوسری طرف یہی حال مصر کے علاوہ دیگر مسلم ممالک کا بھی ہے۔ پاکستان سمیت سعودی عرب، لبنان، متحدہ عرب امارات یہ سب ممالک استعماری طاقتوں کے غلام بن چکے ہیں۔لیکن جو نقطہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ بلاشبہ ان مسلم ممالک کی حکومتیں استعماری طاقتوں کی غلامی کر رہی ہیں لیکن ان ممالک کے عوام ان حکمرانوں کے برعکس اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں!اور یہی وہ نقطہ ہے جو ان ممالک کے عوام اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کی مدد کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔عوام کو چاہیے

کہ اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے حق میں بھرپور طریقے سے سڑکوں پر نکلیں اور اپنی اپنی حکومتوں پر دباؤ بڑھائیں اور ہو سکے تو مصر جیسے ممالک میں غزہ کی سرحد پر مظاہرے کیے جائیں تاکہ مصر جیسے ممالک پر اندرونی دباؤ بڑھایا جاسکے کہ مصر کی آمرانہ حکومت مجبور ہو کر اپنے مائی باپ امریکہ سے گزارش کرے کہ

معاملات کو درست کیا جائے وگرنہ ہماری عوام ہمارے قابو سے باہر ہو جائیگی! اب وقت آ چکا ہے کہ ہم سب اپنے اپنے بیرونی آقاؤں کے غلام حکمرانوں پر دباؤ بڑھائیں اورہو سکے تو ان کو چلتا کریں۔ کیونکہ طاقت ہمیشہ طاقت کی زبان ہی سمجھتی ہے، وگرنہ جرم ضعیفی کی سزا تو مرگ مفاجات ہی ہے۔ لیکن یہ سارے ظالم ایک بات بھول جاتے ہیں کہ اس عالم کا ایک رب بھی ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیںہے اور جب ظلم حد سے بڑھتا ہے، تو یہ رب اسکو جَڑ سے کاٹ ڈالتا ہے، اسرائیل کا خاتمہ ان شا ء اللہ ایسا ہی دردناک ہوگا کیونکہ اسرائیل اپنے ظلم میں ہر حد پار کر چکا ہے! اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین