بلوچستان میں حب الوطنی کی سوچ رکھنے والے بلوچ طلباء بھی جبری گمشدگی کا شکار ہیں ۔ ان کی حب الوطنی پر شک کرنا بلوچ معاشرے میں کئی سوالات چھوڑگیا ہے ۔ شاید ان سوالات کا جواب لاپتہ کرنے والوں کے پاس نہیں ہے ۔ اگر وہ کسی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں تو انہیں ملکی عدالتوں میں پیش کیا جائے اور ان کا فیئر ٹرائل کیا جائے ۔ بلوچستان یونیورسٹی کے دو طالبعلموں سہیل اور فصیح بلوچ کو 2 نومبر 2021 میں کوءٹہ سے جبراً لاپتہ کیا گیا تھا ۔ دونوں طلباء مطالعہ پاکستان کے طالب علم تھے ۔ لاپتہ ہونے والے دونوں طالب علموں کا تعلق ضلع نوشکی سے ہے ۔ نومبر 2023 کے پہلے ہفتے میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بساک) کی جانب سے سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کی دو سال سے جبری گمشدگی پر تین روزہ احتجاجی مہم کا اہتمام کیاگیا ۔ جس کے باعث بلوچستان اور سندھ کے شہر تربت، کوءٹہ، حب، اوتھل اور خضدار سمیت کراچی میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے ۔ مظاہرین نے لاپتہ بلوچ طلبا کی رہائی اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ۔ ان کی بازیابی کے لئے ماضی میں بھی سخت احتجاج کیاگیا تھا ۔ یہ احتجاج دو نومبر 2021 کو دونوں طلبا کی جبری گمشدگی کے خلاف ہوئے تھے ۔ بلوچ طلبا تنظیموں نے ان کی بازیابی کے لئے ڈیڑھ مہینہ تک جامعہ کے اندر دھرنا دیا تھا اور کلاسوں کا بائیکاٹ بھی کیا تھا ۔ احتجاج کے دوران بلوچستان کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے طلبا کے احتجاج پر تین رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ کمیٹی نے احتجاج کرنے والے طلبا سے ملاقات بھی کی لیکن کٹھ پتلی حکومت کی کمیٹی اغوا کاروں کے سامنے لیٹ گئی ۔ حکومتی کمیٹی کے ارکان دم دبا کر ایسے بھاگ گئے کہ دوبارہ مڑکر پیچھے نہیں دیکھا ۔
دونوں لاپتہ بلوچ طلبا مطالعہ پاکستان اور پاکستان کی تاریخ سے گہری دلچسپی رکھتے تھے ۔ قید و بند کا شکار ہونے کے بعد لازمی بات ہے کہ لاپتہ طلبا کی سوچ باغیانہ ہو گی ۔ جس کی ذمہ دار حکومتی پالیسیاں ہوں گی جو بلوچستان میں جاری ہیں ۔ خدارا! ایسی حرکات سے گریز کیا جائے جس سے حب الوطنی کی سوچ کی جگہ مزید مزاحمت پسندی کی سوچ پروان چڑھے ۔ ماضی میں بے شمار بلوچ طلبا نے جبری گمشدگی کے بعد کتاب کی جگہ ہتھیار کو اپنا راستہ چنا ۔ آج وہ بلوچستان کے پہاڑوں میں سرمچاروں کی صورت میں موجود ہیں ۔ آخر حکومت اپنی پالیسیوں پر کب نظر ثانی کریگی جس سے مزاحمت پسندی جیسے رجحان کا تدارک ہوسکے ۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ ہر ماہ دو درجن سے زائد افراد کو حراست میں لیا جاتا ہے اور انہیں لاپتہ کردیا جاتا ہے ۔ ہمارے سامنے سوشل میڈیا پر بے شمار خبریں آتی ہیں ۔ یہ خبریں پاکستان کے نام نہاد قومی میڈیا میں نہیں چھپتی ہیں ۔ بلوچستان کو مکمل طورپر بلیک آوَٹ کیاگیا ہے ۔ پنجاب میں کسی کی بلی اور کتا بھی گھر سے بھاگ جائے تو یہ میڈیا کی ہیڈ لائن بن جاتی ہے ۔ جبکہ بلوچستان میں اولادیں اپنی ماءوں سے جدا ہوجاتی ہیں تو ایک سنگل کالم خبر بھی شاءع نہیں ہوتی ہے ۔ یہ شرم کا مقام ہے ۔
بلوچستان میں ہر روز کسی نہ کسی علاقے سے جبری گمشدگی کی اطلاعات آتی رہتی ہیں ۔ یکم نومبر 2023 کو تربت کے علاقے چاہ سر پرانا ہوٹل کے نزدیک عبدالوہاب ولد محمد جان نامی نوجوان کو لاپتہ کردیاجاتا ہے ۔ دو نومبر 2023 کو ضلع کیچ سے شاہد ولد دلپل نامی شخص کو لاپتہ کردیا جاتا ہے ۔ جنہیں تربت کے علاقے ڈکی بازار سے حراست میں لیا جاتا ہے ۔
تین نومبر 2023 کو خضدار کے علاقے کوڑاسک کے رہائشی نوجوان ہارون بلوچ کو غائب کردیا جاتا ہے ۔ اسی طرح 29 اکتوبر 2023 کو کوڑاسک کے دو رہائشی ظفر اورعنایت اللہ کو جبراً لاپتہ کر دیا جاتا ہے ۔ چار نومبر 2023 کو ضلع کیچ سے نعمان ولد امان نامی نوجوان کو لاپتہ کردیا جاتا ہے ۔ لاپتہ ہونے والا نوجوان نودز کا رہائشی ہے ۔ پانچ نومبر 2023 کو مکران کے ساحلی علاقے پسنی سے ایک شخص سلیم رضا کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا جاتا ہے ۔ سات نومبر 2023 کو ضلع خاران کے علاقے وڈھ ایریا میں دو نوجوان عبدالقدیر ولد محمد عارف یلانزئی اور صلاح الدین ولد محمد خان یلانزئی کور لاپتہ کردیا جاتا ہے ۔ اسی روز تربت کے علاقے شاہی تمپ کے رہائشی شیران ولدیت میار بلوچ اور جمیل ولدیت محمد جان بلوچ کو فون پر بلایا جاتا ہے ۔ جس کے بعد سے انہیں لاپتہ کردیا جاتا ہے ۔ اسی روز یعنی سات نومبر 2023 کو کوءٹہ کے مختلف علاقوں میں گھروں پر چھاپے کے دوران تین نوجوان عطاء اللہ، حمزہ اور بیبگر کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جاتا ہے ۔ آٹھ نومبر 2023 کو ضلع کیچ میں تمپ کے علاقے کوجو میں واجو سالم ولد دین محمد نامی شخص کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا جاتا ہے ۔ اسی روز ضلع کیچ سے نوجوان امداد ولد سالم کو لاپتہ کردیا جاتا ہے ۔ لاپتہ ہونے والا ہوشاپ کے علاقے سند کا رہائشی ہے ۔ اسی روز یعنی آٹھ نومبر کو ضلع آواران سے پانچ افراد کو حراست میں لیا جاتا ہے ۔ بعد میں لاپتہ کردیا جاتا ہے ۔ لاپتہ ہونے والوں میں حافظ عظیم، برکت ولد موسی، محمد امین ولد درا خان، گزین ولد نوردین اور حاصل ولد نوردین شامل ہیں ۔ تیس اکتوبر 2023 کو ضلع خضدار سے دو نوجوان ظفر ولد حاجی غلام نبی اور عنایت اللہ ولد عبدالخالق کو حراست میں لیا جاتا ہے ۔ اور لاپتہ کردیا جاتا ہے ۔
عَملاً ملکی آئین و قانون جبری گمشدگی کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔ ملکی آئین کے مطابق گرفتاری قانون کے دائرہ کار میں کی جاتی ہے، اور ہر فرد کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے اور 24 گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرکے ریمانڈ لیا جاتا ہے ۔ لیکن بلوچستان میں اس کے برعکس ہورہا ہے ۔ جبکہ پنجاب میں اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے ۔ پنجاب میں پیش آنے والے 9 مئی 2023 کے واقعات ہمارے سامنے ہےں ۔ تحریک انصاف کے جتنے بھی رہنما اور کارکنان کی گرفتاری ہوئی تھی ۔ انہیں عدالتوں میں پیش کیاگیا ۔ مگر بلوچستان میں پندرہ پندرہ سالوں تک سیاسی کارکنان غائب ہیں ۔ ان کے بچے سڑکوں پر احتجاج کرکے بڑے ہوگئے ۔
بلوچستان کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ مسخ شدہ لاشیں اور لاپتہ افراد کا ہے ۔ جب تک بلوچستان میں لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کا معاملہ حل نہیں ہوگا ۔ بلوچستان میں جاری انسرجنسی مزید بڑھتی رہے گی ۔ اس مسئلے کا حل تلاش کیا جاناچاہیے ۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین انسانی حقوق کا مسئلہ ہے ۔ کوئی واقعہ کہیں ہوجاتا ہے تو دو آدمی چھوڑ دیے جاتے ہیں اور دس کو اٹھالیا جاتا ہے ۔ کچھ لوگ بازیاب ہوتے ہیں تو ان سے زیادہ لاپتہ ہوجاتے ہیں ۔ جس کافوری طور پر تدارک کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ بعض لوگ جرائم میں ملوث ہیں ۔ تو ان کو عدالتوں میں پیش کرکے ان کو فیئر ٹرائل کا موقع فراہم کیاجائے ۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کئے بغیر بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔
حب الوطن طلباء بھی لاپتہ
وقتِ اشاعت : November 12 – 2023