|

وقتِ اشاعت :   November 14 – 2023


نامور صحافی، مصنف ،بانی رکن بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) اور سابق رہنما نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) لطیف بلوچ بارہ نومبر 2023 کو لندن میں انتقال کرگئے۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں اور علم و فراست اور سیاسی تدبرکا ایک زمانہ معترف تھا۔ مطالعے کی وسعت کی بنا پر ان کا شمار اہل علم میں ہوتا تھا۔ اس کے انتقال سے نہ صرف کراچی بلکہ بلوچستان ایک نڈر اور علم دوست ہستی سے محروم ہوگیا۔ انہوں نے آخری دم تک اصولوں کی پاسداری کی۔ وہ ایک نڈر صحافی اور مصنف تھے۔ ان کی کئی کتابیں ہیں۔ انہوں نے کھل کر صحافت کی اور بلوچستان سمیت کراچی کے بلوچ پسماندہ علاقوں کی نمائندگی کی۔ انہوں نے صحافت میں کوئی کنجوسی نہیں کی۔
لطیف بلوچ نے لیاری کے علاقے بغدادی میں ایک متوسط طبقہ میں آنکھ کھولی۔ ان کے آبا ؤ اجداد دو سو سال قبل مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان) کے علاقے قصر قند سے کراچی آئے تھے۔ قصر قند اپنی دیرینہ تاریخ کے ساتھ صوبے سیستان و بلوچستان کا قدیم ترین شہر ہے۔ بغدادی میں آج بھی قصرقندی محلہ آباد ہے۔ جو اپنی الگ تھلگ شناخت رکھتا ہے۔ وہ اپنے آبا ؤ اجداد کی سرزمین (بلوچستان) کی شناخت سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ اور فخر سے اپنے نام کے سامنے قصرقندی بلوچ لکھتے ہیں۔ یہاں قصر قندی انجمن کے نام سے ایک سماجی تنظیم بھی قائم ہے۔ جس کے سربراہ لطیف بلوچ کے چھوٹے بھائی موسیٰ بلوچ ہیں۔
لیاری میں بغدادی نے قلم کار، علم دوست، شاعر، موسیقار، اسپورٹس مین پیدا کئے۔ جن میں بلوچی لوک موسیقار، ناکو فیض محمد بلوچ، موسیقار اور شاعر عمر جمالی، بورل قصرقندی، بلوچی شاعرہ بانل دشتیاری، آزادی پسند رہنما شہید پروفیسر صبا دشتیاری، پروفیسر ن م دانش، گلوکار عبداللہ آڈو، سینئر صحافی اور قلم کار نادر شاہ عادل، یار محمد یار، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سرکردہ رہنما سعید جان بلوچ، نامور فوٹو جرنلسٹ غلام اکبر بلوچ، انٹرنیشنل فٹبالر کیپٹن عباس بلوچ، علی نواز بلوچ، غلام سرور، فیفا ریفری جان محمد بلوچ، عبدالغفور مجنا، مولابخش، مشہور و معروف ڈانسر ابراہیم لچک اور دیگر شامل ہیں۔ یہاں کے شعرا اور ادیب اور دانشوروں نے بلوچی ادب اور زبان کو فروغ دیا۔ بغدادی بلوچ نیشنلزم کا سرچشمہ رہا۔ بغدادی باصلاحیت بلوچ قوم پرستوں کا گڑھ رہا۔ جن کی بدولت آج بلوچ تحریک میں ایک جدت آگئی ہے۔
لطیف بلوچ نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) سے کیا اور پھر 1970 کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان کی حکومت میں انفارمیشن آفیسر بن گئے۔ لطیف بلوچ نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے ٹکٹ سے لیاری میں عام انتخابات میں بھی حصہ لیا تاہم انہیں کامیابی نہیں ملی مگر انہوں نے کبھی بھی سیاسی اسپیس نہیں چھوڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہار میں بھی جیت ہوتی ہے۔
جب بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی حکومت کو برطرف کرکے نیپ پر پابندی عائد کی گئی تو سردار عطاء اللہ مینگل، نواب خیربخش مری، میرغوث بخش بزنجوِ، سینئر صحافی اور مصنف صدیق بلوچ، لطیف بلوچ سمیت نیپ کی دیگر قیادت کو گرفتار کرکے انہیں حیدرآباد جیل میں رکھا گیا۔
لطیف بلوچ میرے (راقم) صحافتی استاد تھے۔ انہوں نے مجھے قلم چلانے کا ہنر سکھایا۔ خبر کیا ہوتی ہے۔ صحافت کیسی کرنی ہے۔ وہ ہمیشہ مجھے اصولوں پر قائم رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ آج میں اپنے استاد سے محروم ہوگیا ہوں۔
لطیف بلوچ نے ریاستی جبر سمیت لیاری میں جاری گینگ وار کے سامنے کبھی بھی ہتھیار نہیں پھینکا۔ انہوں نے کھل کر گینگ وار کے خلاف لکھا۔ لیاری میں گینگ وار کے خاتمے کے خلاف سیاسی طورپر بھی سرگرم تھے۔ لطیف بلوچ کے کہنے پر بلوچ اتحاد تحریک کے بانی انور بھائی جان نے لیاری میں امن قائم کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی۔ جس میں انور بھائی جان، لطیف بلوچ، اس وقت کے رکن قومی اسمبلی نبیل گبول، کراچی پریس کلب کے موجودہ صدر سعید سربازی اور میں (راقم) کمیٹی کے ارکان تھے۔ کمیٹی نے لیاری میں جاری گینگ وار کے دو گروپوں کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ تاہم ان کوششوں سے مقتدر حلقے خوش نہیں تھے۔ جس کے باعث بلوچ اتحاد تحریک کے سربراہ انور بھائی جان کی شہادت ہوئی۔ اس شہادت کے بعد بات چیت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ دیکھتے دیکھتے لیاری سے ہزاروں نوجوان مارے گئے۔ ایک گینگ نے دوسرے گینگ پر حملے شروع کردیئے۔ مخالفین ایک دوسرے کے گھر جلانے لگے۔ اس آگ نے پورے لیاری میں ایک نسل ختم کردی جس سے بلوچ معاشرے کو ایک بڑا دھچکا لگا۔ بلوچ سیاسی، سماجی اور معاشی طورپر کافی کمزور ہوگئے۔
لطیف بلوچ نے آخری دم تک لیاری کی خدمت سے دستبردار نہیں ہوئے۔ انہوں نے روزنامہ ڈان کراچی میں 33 سال سینئر رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ ڈان سے ریٹائرمنٹ کے بعد کتابیں لکھنا شروع کردیا۔ ان کی کتابوں میں بلوچ سماج کو درپیش سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔انہوں نے لیاری میں “بک ریڈر کلب” کے نام سے ایک پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی۔ اس پلیٹ فارم کے توسط سے وہ ادبی اور سیاسی نشستوں کا انعقاد کرتے تھے۔ کتابوں سے ان کی دوستی تھی۔ انہوں نے لیاری میں ایک لائبریری بھی قائم کی ہے۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ لطیف بلوچ کے دور میں شروع ہوا۔ جبری گمشدگی کا پہلا واقعہ کراچی میں پیش آیا جب بزرگ بلوچ سیاستدان سردار عطاء اللہ مینگل کے صاحبزادے اسداللہ مینگل اور بلوچ گوریلا کمانڈر احمد شاہ کرد کو لاپتہ کردیا گیا ان کی لاشیں آج تک نہیں ملیں۔ ان کی اموات تاحال ایک معمہ ہیں۔ اسد اللہ مینگل کے والد سردار عطااللہ مینگل ان دنوں حیدرآباد سازش کیس میں قید اور جناح اسپتال کے شعبے کارڈیولوجی میں زیرعلاج تھے۔ اسدللہ مینگل کی کار کراچی میں بلخ شیر مزاری کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر پائی گئی جو بری طرح تباہ ہو چکی تھی جب کار کو کھولا گیا تو اگلی نشست پر خون کے دھبے تھے لیکن اسداللہ مینگل اور ان کے دوست احمد شاہ کرد دونوں ہی غائب تھے۔ اور تلاش کے باوجود وہ کہیں مل نہ سکے۔ احمد شاہ کرد کا تعلق بلوچستان کے علاقے مستونگ سے تھا۔ وہ 70 کے دہائی میں چلنے والی مزاحمتی تحریک کے سرکردہ رہنما تھے۔اسد مینگل کی عمر 19 سال تھی وہ کراچی میں نیشنل کالج میں زیر تعلیم تھے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے ایک نجی چینل پر ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ وہ اسد مینگل اور احمد شاہ کرد کو زخمی حالت میں مظفر آباد کشمیر میں جلالی کیمپ لائے تھے اور تشدد سے ان کی شہادتیں ہوئیں تھیں۔
لطیف بلوچ کو پیار سے سردار عطاء اللہ مینگل “لطو” کے نام سے پکارتے تھے۔ ہم اکثر سردار عطاء اللہ مینگل اور بلوچ گوریلا رہنما نواب خیربخش مری کے گھر جایا کرتے تھے۔ اور ان کے انٹرویو سمیت دیگر سیاسی امور پر بحث کرتے تھے۔
لطیف بلوچ اور میں (راقم) دونوں بلوچ مارکسسٹ رہنما لال بخش رند سے ملنے ان کے گھر آٹھ چوک پر حاضری دیتے تھے۔ جبکہ سنگھولین میں ادیب اور دانشور رحیم بخش آزاد کے گھر بھی جاتے تھے۔ جب جنرل عبدالقادر بلوچ سندھ رینجرز کے ڈی جی کے عہدے پر فائز تھے تو ہم ان سے ملاقات کرنے بھی جایا کرتے تھے۔ جنرل قادر بلوچ بھی طالب علمی دور میں لطیف بلوچ کے ساتھیوں میں تھے۔ جنرل صاحب بھی بی ایس او کی پیداوار ہیں۔ دونوں بی ایس او کے زمانے کی باتیں شیئر کرتے تھے۔ اور میں ان کی باتیں سنتا تھا۔
ہم مکران کے دورے بھی کرتے تھے۔ تربت میں سابق قومی اسمبلی رکن اور سابق جسٹس شکیل بلوچ ایڈوکیٹ اور بلوچستان اسمبلی کے سابق اپوزیشن لیڈر کچکول علی ایڈوکیٹ کے مہمان ہوتے۔ کچکول علی ایڈوکیٹ شہدائے مرگاپ کے وکیل تھے۔ جب ان کے دفتر سے غلام محمد بلوچ، لالا منیر اور شیرمحمد بلوچ اٹھایا گیا۔ بعد میں ان کی لاشیں تربت کے علاقے مرگاپ کے مقام پر ملیں۔ اس واقعہ کے بعد کچکول علی ایڈوکیٹ کو پاکستان چھوڑنا پڑا۔
ہم دونوں گوادر میں گوادر فش ہاربر کے سابق ڈائریکٹر ایوب بلوچ کے مہمان ہوتے تھے۔ ایوب بلوچ کا تعلق کراچی کے علاقے لیاری سے تھا۔ جب ہماری موجودگی کا پتہ بی ایس او کے بانی رہنما رحیم ظفر کو چلتا تو وہ انگور کی بوتل کے ساتھ ہمارے پاس آتے۔ موسم سرما کا زمانہ تھا۔ موسمی ہواؤں کا سسٹم ناشی (گورییچ) کی سرگوشیاں کانوں میں میوزک کی طرح بجتی تھیں۔ جبکہ گودار کے ساحل پر لہروں کی ٹوٹنے کی ہلکی آوازیں گونجتی تھیں۔ اور اوپرسے چاندنی رات ہوتی تھی۔ جو ایک دلکش منظر پیش کرتا تھا۔ استاد لطیف بلوچ کے قہقے کی گونج آج بھی میرے کانوں میں گردش کررہی ہے۔ وہ ایک زندہ دل انسان تھے۔ اور خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے۔
لطیف نے پوری زندگی بلوچ قومی تحریک کی تبلیغ میں گزاری۔ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔ آج بلوچستان میں جاری بلوچ تحریک لطیف جیسے ہستیوں کی مرہون منت ہے۔ وہ ایک اصول پرست صحافی اور مصنف تھے۔ میرے استاد جیسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ ان کا سیاسی خلا کوئی بھی پر نہیں کرسکتا۔